1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا کو قابو کرنا کیوں مشکل

افسر اعوان16 فروری 2016

شمالی کوریا کی جانب سے جوہری اور پھر میزائل تجربات کے بعد عالمی سطح پر اس کی مذمت کی جا رہی ہے مگر کیا پیونگ یانگ کے خلاف کوئی سخت کارروائی آسان ہوگی؟ ایک تجزیے میں اسے ایک مشکل امر قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HwCv
تصویر: picture-alliance/dpa

چھ ہفتے قبل یعنی چھ جنوری کو شمالی کوریا کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اس نے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔ بعد ازاں سات فروری کو عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی کوریا نے ایک مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کا اعلان کیا تاہم عالمی برادری کا خیال ہے کہ یہ دراصل ایک دور مار میزائل کا تجربہ تھا۔ ان حالات میں جنوبی کوریا، امریکا اور جاپان کی طرف سے نہ صرف شدید مذمت کی گئی بلکہ شمالی کوریا کے خلاف سخت کارروائیوں کی بھی دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم یہ سب کچھ ابھی باتوں تک ہی محدود ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے تجزیے کے مطابق پیونگ یونگ کے خلاف کریک ڈاؤن اس قدر آسان نہیں ہے ہوگا جتنا محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی چند ایک وجوہات یہ ہیں۔

پابندیاں

شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کی زیادہ تر باتیں امریکا یا جنوبی کوریا کی طرف سے کی جا رہی ہیں تاہم یہ چین ہے جس کے ہاتھ میں زیادہ تر کارڈز ہیں۔ جوہری اور پھر میزائل تجربے کے بعد امریکی کانگریس نے شمالی کوریا کے خلاف پہلے سے ہی لگی پابندیوں کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Nordkorea bereitet Start einer Weltraumrakete vor ARCHIV
تصویر: picture alliance/AP Photo/KCNA

امریکا سمیت بعض دیگر مختلف ممالک اور اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو کئی برس ہو چکے ہیں تاہم پیونگ یونگ کا اسلحے کا پروگرام جدید سے جدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اے پی کے تجزیے کے مطابق چین طویل عرصے سے اپنے پڑوسی شمالی کوریا کا معاشی اعتبار سے تحفظ کر رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ سخت پابندیوں کے باعث پیونگ یانگ حکومت کمزور ہو سکتی ہے اور یہ ملک افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔

سفارت کاری


کیا شمالی کوریا ایک جوہری ریاست ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو جزیرہ نما کوریا میں سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے اہم فورم چھ ملکی مذاکرات ہیں جو 2008ء کے بعد سے منعقد ہی نہیں ہوئے۔ واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے لیے پیونگ یانگ اپنے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے آمادگی ظاہر کرے۔ جبکہ پیونگ یانگ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک مکمل جوہری طاقت ہے اور عالمی برادری اور خاص طور پر واشنگٹن کو اس سے معاملات کے لیے اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔

بعض ممالک کا خیال ہے کہ شمالی کوریا اپنا جوہری پروگرام ترک نہیں کرے گا اس لیے پیونگ یانگ سے معاملات طے کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اسے جوہری طاقت تسلیم کر لینا چاہیے اور اسے اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ جوہری پروگرام کو مزید نہ پھیلائے اور بتدریج ہتھیاروں میں کمی لے آئے۔ تاہم واشنگٹن حکومت شمالی کوریا کو جوہری طاقت تسلیم کرنے پر قطعاﹰ تیار نہیں ہے۔

فوجی کارروائی

اگر شمالی کوریا کی جوہری تنصیبات پر کوئی حملہ کیا جاتا ہے تو یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ صورتحال ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ جنوبی کوریا کا دارالحکومت سیؤل شمالی کوریا کی سرحد سے محض 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سیؤل اور اس کے مضافات میں 50 ملین افراد رہتے ہیں۔ روایتی جنگ کی صورت میں بھی یہ تمام لوگ شمالی کوریا کی توپوں کی براہ راست پہنچ میں ہیں۔ لہذا پیونگ یانگ چند منٹوں کے اندر ہی جنوبی کوریا کو بہت بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے شمالی کوریا کے خلاف کسی جنگی کارروائی سے جُڑے خطرات انتہائی زیادہ ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی کوریا اور واشنگٹن ہرگز اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لیں گے۔

Südkorea gesperrte Zufahrt Grenze Nordkorea Kaesong
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap

کیسونگ صنعتی زون

چند روز قبل ہی سیؤل حکومت نے شمالی کوریا کے ساتھ کیسونگ کا مشترکہ صنعتی کمپلیکس بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمپلیکس جنوبی کوریا کی سرحد کے قریب شمالی کوریا کے اندر واقع ہے۔ سیؤل حکومت کا کہنا ہے کہ پیونگ یانگ اس کمپلیکس سے ہونے والی آمدنی اپنے ہتھیاروں کے پروگرام پر لگا رہا ہے۔

کیسونگ صنعتی کمپلیکس میں شمالی کوریا کے 54000 کارکن کام کرتے ہیں۔ ان ورکرز کو براہ راست تنخواہیں دیے جانے کی بجائے جنوبی کوریا یہ رقم شمالی کوریا کی حکومت کو فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ برس اس ضمن میں 120 ملین ڈالرز کے برابر رقم شمالی کوریا کو ملی۔ کیسونگ کے صنعقی کمپلیکس کی بندش سے شمالی کوریا کو کسی حد تک معاشی نقصان تو ہوگا مگر اس قدر نہیں کہ اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔

شمالی کوریا کی محض چین کو کی جانے والی برآمدات کی مالیت کیسونگ انڈسٹریل پارک سے ہونے والی آمدنی سے 20 گُنا زیادہ ہیں۔ لہذا اگر چین عالمی برادری کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کا ساتھ نہیں دیتا تو شمالی کوریا کے لیے کیسونگ کا جھٹکا برداشت کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔