1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی راکھین کے حالات پر تشویش ہے، کوفی عنان

16 نومبر 2016

اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے میانمار کی ریاست راکھین میں جاری پرتشدد واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ راکھین میں گزشتہ اختتام ہفتہ پر فوج کے ہاتھوں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2SlVe
München Sicherheitskonferenz - Kofi Annan
تصویر: Reuters/M. Dalder

اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے میانمار میں فوری طور پر خونریزی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی جانب سے یہ بیان راکھین کے دارالحکومت ستوے میں مقامی حکام سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ کوفی عنان اُس سات رکنی کمیشن کے سربراہ بھی ہیں، جو راکھین کے حالات کے تناظر میں بنایا گیا ہے۔ کوفی عنان کے مطابق، ’’میں شمالی راکھین میں جاری تازہ ہنگامہ آرائی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ ان واقعات کی وجہ سے یہ ریاست غیر مستحکم ہو رہی ہے اور جس سے ایک نئی نقل مکانی جاری ہے۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے تمام فریقین سے تشدد کو ترک کرنے کا کہا، ’’میں سلامتی کے اداروں سے بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ قانون کے مطابق اپنی کارروائیاں کریں۔‘‘ عنان اور کمیشن کے دیگر افراد آج بدھ کے روز تازہ ہنگامہ آرائی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کا دورہ کریں گے۔

Myanmar Konfikte in Rakhine Region
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun

امریکا کی جانب سے بھی راکھین میں پرتشدد واقعات کے دوبارہ سے رونما ہونے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان الزبتھ ٹروڈر نے ینگون حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کی معتبر انداز میں آزادانہ تحقیقات کروائے۔ اقوام متحدہ کے ایک رابطہ دفتر کے مطابق حالیہ کشیدگی کے باعث راکھین میں 15 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں جبکہ انتہائی غربت کے شکار اس علاقے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایک مہینے سے بھی زائد کے عرصے سے انسانی بنیادوں پر امداد کے منتظر ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں کے دوران روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد افراد سرحد پار کر کے بنگلہ دیش ہجرت کر گئے ہیں۔

میانمار میں آباد تقریباً گیارہ لاکھ افراد کا تعلق روہنگیا مسلم برادری سے ہے۔ یہ لوگ مقامی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ 2012ء میں بدھ مت کے پیروں کاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے مابین شدید ہنگامہ آرائی شروع ہوئی تھی اور یہ سلسلہ تب سے وقفے وقفے سے جاری ہے۔