1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی افغانستان: داعش کی پیشقدمی نے خطرے کی گهنٹیاں بجادیں

شادی خان سیف، کابل9 جولائی 2016

افغانستان میں داعش کے عسکریت پسندوں کی جانب سے ملک کے شمالی حصوں کی جانب پیش قدمی پر ملکی پارلیمان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JMLA
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

گزشته ہفتے ایسی خبریں گردش میں تہیں که سینکٹروں کی تعداد میں داعش کے حامی عسکریت پسند سنگلاخ چٹانی راستوں سے ہوتے ہوئے ملک کے شمال مشرقی صوبے بدخشان میں داخل ہوگئے ہیں۔ پہلے بدخشان کی مقامی انتظامیه کی جانب سے یه بات کی گئی اور اب دارالحکومت کابل میں افغان حکام نے ان خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

واضح رہے که عراق اور شام میں سر اٹهانے والی شدت پسند تنظیم داعش کے لیے اوائل میں افغانستان کے جنوب سے حمایت سامنے آئی تهی۔ مگر وہاں، بالخصوص شورش زده صوبے ہلمند میں افغان اور نیٹو افواج کی کارروائیوں میں داعش کی حامی عسکریت پسند قیادت کو نشانه بنائے جانے کے بعد ملک کے مشرقی علاقے، بالخصوص پاکستان کی قبائلی پٹی سے ملحق صوبہ ننگریار، ان کی آماجگاه بن گیا۔ اب وسطی ایشیا سے متصل شمالی صوبوں میں داعش کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کابل حکومت کے لیے خاصی تشویش کا باعث ہے۔

سینکٹروں کی تعداد میں داعش کے حامی عسکریت پسند ملک کے شمال مشرقی صوبے بدخشان میں داخل ہوگئے ہیں
سینکٹروں کی تعداد میں داعش کے حامی عسکریت پسند ملک کے شمال مشرقی صوبے بدخشان میں داخل ہوگئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

افغان پارلیمان کے ایوان زیریں (ولسی جرگه) میں اس موضوع پر بحث میں حصه لیتے ہوئے زکریا سودا نے جو بدخشان سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں، کہا که داعش کے حامی قریب چار سو عسکریت پسندوں نے عید کے ایام میں صوبے کے مختلف علاقوں میں اپنی آماج گاہیں بنا لی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا که اگر حکومت نے فوری طور پر اس مسئلے کو سنجیده لیتے ہوئے عملی اقدامات نه اٹهائے تو معامله هاتھ سے نکل جائے گا۔ واضح رہے که ننگرہار کے ضلع کوٹ اور آچین میں گزشته ماه کے اواخر میں داعش کے حامی عسکریت پسندوں نے پولیس اور مقامی ملیشا کی چیک پوسٹوں پر حملے کر کے درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا تها۔

افغان سکیورٹی دستوں نے ان علاقوں میں متعدد آپریشن کیے ہیں تاہم اب تک یہاں سے اس گروه کا خاتمه ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

سودا کی ہمنوائی کرتے ہوئے مشرقی صوبے کنڑ کے رکن پارلیمان صالح محمد نے کہا که مشرقی صوبوں کے بعد شمال کی جانب داعش کی پیشقدمی سے افغانستان کی مرکزی حکومت کے لیے سنجیده مشکل پیش آسکتی ہے۔

مشرقی افغانستان میں داعش کی مسلح کارروائیاں

ننگرہار میں پسپائی کے بعد داعش کے جہادیوں کا رخ کنڑ کی طرف

بدخشاں کے مرکز فیض آباد سے موصوله اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت کو ایسی ویڈیو موصول ہوئی ہیں، جن میں طالبان اور داعش کے عسکریت پسندوں کو ضلع جرم میں دونوں تنظیموں کے جهنڈے لہراتے دیکها جاسکتا ہے۔ اس ویڈیو میں عسکریت پسندوں کے قبضے میں افغان سکیورٹی دستوں کی ’رینجر‘ پک اپ گاڑیاں بهی دیکهی جاسکتی ہیں۔

یاد رہے که ملک کے دیگر حصوں میں طالبان اور داعش کے حامی عسکریت پسندوں میں خونریز جهڑپیں ہوتی رہی ہیں، جن میں اکثر طالبان کا پلڑا بهاری رہا ہے۔ بدخشان کے گورنر فیصل بیگ زاد کے مطابق صوبے میں داخل ہونے والے عسکریت پسندوں کی بہت بڑی تعداد غیر ملکیوں پر مشتمل ہے، جن میں تاجک، چیچن اور پاکستان عسکریت پسند شامل ہیں۔ بیگ زاد کے بقول فی الحال ایسا لگتا ہے که داعش کے عسکریت پسند یہاں قدم جمانے میں مصروف ہیں، جس کے بعد وه کارروائیوں کا اغاز کرسکتے ہیں۔

ان کے مطابق مقامی آبادی میں پردهاک بٹهانے کی خاطر داعش نے اعلامیے بهی تقسیم کیے ہیں۔