1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے حکمران تحمل کا مظاہرہ کریں، بان کی مون

21 فروری 2011

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عدم تشدد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حکام سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/10KuB
سابق مصری صدر حسنی مبارک اور لیبیا کے صدر معمر قذافی، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

نیویارک میں قائم یو این کے صدر دفتر میں سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے بتایا کہ بان کی مون نے خطے کے رہنماوں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ ان کے بقول اقوام متحدہ اس تاریخی پیشرفت کے موقع پر ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ نے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ دہرایا ہے۔

اس سے قبل لیبیا کے صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے ملک میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

Gaddafi-Sohn dämpft Hoffnungen von IRA-Opfern
سیف الاسلام قذافیتصویر: picture-alliance/dpa

لیبیا میں عوامی احتجاج میں شدت اور ہلاکتوں میں اضافے کے باوجود صدر معمر قذافی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ ملک کے مشرقی علاقوں میں شروع ہونے والا احتجاجی سلسلہ اب دارالحکومت طرابلس کے قریب پہنچ رہا ہے۔

اتوار کی شب ٹیلی وژن پر خطاب میں صدر قذافی کے بیٹے نے کہا کہ پیر کو عوامی کانگریس میں اصلاحات کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا یقین دلاتے ہوئے تسلیم کیا کہ سکیورٹی دستوں سے مظاہرین کو منتشر کرنے میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔

عرب دنیا میں سر اٹھانے والی عوامی لہر اب مراکش بھی پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے لیبیا میں مظاہرین کو دبانے کی ریاستی کوششوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عرب لیگ میں لیبیا کے مستقل مندوب عبد المنعم الہونی نے اپنا یہ عہدہ چھوڑکر مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔

ذرائع ابلاغ پر عائد بندشوں کے سبب لیبیا کی حقیقی زمینی صورتحال سے متعلق مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہو رہیں۔ بین الاقوامی امدادی ادارے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومتی فورسز اور مظاہرین کی جھڑپوں میں لگ بھگ دو سو ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

Marokko Marokkaner Demonstration an der Grenze Ceuta
مراکش کا شمار عرب دنیا کی ترقی پزیر ریاستوں میں ہوتا ہےتصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو مظاہرین پر بلا امتیاز فائرنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

لیبیا میں صدر قذافی کے چار عشروں سے زیادہ عرصے سے جاری اقتدار کے خلاف عوامی بغاوت کے اس سلسلے کا آغاز بن غازی نامی شہر سے ہوا ہے۔ نظام مملکت میں تبدیلی اور مزید عوامی آزادی کے ان مطالبات پر تیونس اور مصر کے انقلاب کے اثرات نمایاں ہیں، جو اب ایک اور شمالی افریقی ریاست مراکش تک پھیل گئے ہیں۔ مراکش کے متعدد شہروں سے اتوار کو احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ دارالحکومت رباط میں لگ بھگ چار ہزار جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کاسابلانکا میں بھی اتنی ہی تعداد میں افراد نے مظاہرے کیے۔

NO FLASH Pro Gaddafi Protest Libyen
جمعہ کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں صدر قذافی کے حق میں مظاہرہ کیا گیا تھاتصویر: picture alliance / dpa

دریں ا ثناء امریکہ اور یورپی یونین نے لیبیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کراؤلی نے کہا کہ ان کے ملک کو لیبیا سے موصول ہونے والی تصاویر اور رپورٹوں پر شدید تشویش لاحق ہے۔ ان کے بقول لیبیا میں بین الاقوامی امدادی اداروں اور صحافیوں کو رسائی حاصل نہیں، اس لئے ہلاکتوں کی درست تعداد واضح نہیں۔

جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے بھی لیبیا میں تشدد کو روکنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے صدر قذافی پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے مطالبات پر غور کریں اور ان سے مکالمت کا آغاز کریں۔

واضح رہے کہ لیبیا کی حکومت یورپی یونین کو خبردار کر چکی ہے کہ اگر اس پر زیادہ تنقید کی گئی تو یورپ جانے کے خواہش غیر قانونی تارکین وطن کا راستہ نہیں روکا جائے گا۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں