1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں ’روسی فوج بڑھانے کا منصوبہ‘، امریکا کا روس کا انتباہ

افسر اعوان6 ستمبر 2015

روس کی طرف سے شامی تنازعے میں براہ راست شامل ہونے کی خبروں پر امریکی حکومت نے روس کو تصادم کے خطرات سے متنبہ کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایسی خبروں کے تناظر میں سامنے آئی ہے جن کے مطابق شام میں روسی فوج کو تعینات کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GRlx
تصویر: Reuters/C. Mostoller

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ہفتہ پانچ ستمبر کو بذریعہ ٹیلیفون اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کو متنبہ کیا کہ روس شامی تنازعے میں براہ راست شامل ہونے سے باز رہے۔ یہ بات امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی ہے۔ ’’سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا کہ اگر یہ رپورٹیں درست ہیں تو ایسے اقدامات تنازعے کو مزید بڑھا سکتے ہیں جس کا نتیجہ نہ صرف معصوم جانوں کا مزید بڑے پیمانے پر زیاں اور مہاجرین کے مسئلے میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے بلکہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سرگرم اتحادی افواج اور روس کے درمیان براہ راست تصادم کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔‘‘

امریکی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شامی تنازعے پر بات چیت کا سلسلہ رواں ماہ کے آخر میں نیویارک میں جاری رہے گا۔

ایک امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ہفتے کے روز چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق روس نے شام کی ایک ایئرفیلڈ پر ایئر ٹریفک کنٹرول نظام پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ فوجیوں کے رہنے کے لیے تیار شدہ رہائشی یونٹس بھی وہاں بھیجے گئے ہیں۔ حکام کے حوالے سے جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روس نے سرحدی ممالک سے ستمبر کے دوران فوجی پروازیں گزارنے کی درخواستیں کی ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسرائیلی میڈیا کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ روس نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے جنگی طیارے شامل بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

روس بحیرہ روم کے کنارے طرطوس نامی شامی بندرگاہ پر ایک نسبتاﹰ چھوٹی بحری تنصیب بھی رکھتا ہے
روس بحیرہ روم کے کنارے طرطوس نامی شامی بندرگاہ پر ایک نسبتاﹰ چھوٹی بحری تنصیب بھی رکھتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم جمعہ چار ستمبر کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا تھا کہ شدت پسند گروپ داعش کے خلاف فوجیوں کی تعینات پر بات کرنا فی الحال قبل از وقت ہو گا۔ تاہم انہوں نے شامی فوج کو تربیت فراہم کرنے اور رسد کے حوالے سے ان کی مدد کرنے کے امکانات کی تصدیق کی۔

روس شامی صدر بشارالاسد کے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔ ماسکو سوویت دور سے دمشق حکومت کو ملٹری ساز وسامان اور ہتھیار فراہم کرتا آیا ہے۔ روس بحیرہ روم کے کنارے طرطوس نامی شامی بندرگاہ پر ایک نسبتاﹰ چھوٹی بحری تنصیب بھی رکھتا ہے۔

روس شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مغربی طاقتوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی جانے والی کئی قرار دادوں کو بھی ویٹو کر چکا ہے۔ جمعہ چار ستمبر کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک بار پھر بشار الاسد کے حوالے سے کہا کہ وہ ایک مثبت اپوزیشن کے ساتھ اقتدار بانٹنے کو تیار ہیں۔