1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام، عراق میں فضائی حملے: شہری اموات کا مشروط امریکی اعتراف

مقبول ملک
10 نومبر 2016

پینٹاگون کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں شام اور عراق میں امریکی فضائی حملوں میں ایک سو بیس تک عام شہری ہلاک ہوئے ہوں گے۔ دیگر ذرائع کے مطابق ان دو ممالک میں ایسی شہری ہلاکتوں کی تعداد دراصل اٹھارہ سو کے قریب بنتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2SSux
Symbolbild Luftangriffe der USA gegen IS
امریکی قیادت میں اتحادی ملکوں کے جنگی طیاروں نے شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر اپنے فضائی حملے اگست دو ہزار چودہ میں شروع کیے تھےتصویر: picture-alliance/Us Air Force/M. Bruch

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات دس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی طرف سے بدھ نو نومبر کی رات بتایا گیا کہ اگست 2014ء میں جب شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف فضائی حملے شروع کیے گئے تھے، تب سے اب تک مشرق وسطیٰ کے ان دونوں جنگ زدہ ملکوں میں ایسے حملوں میں 119 عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہوں گے۔

اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون نے شام اور عراق میں امریکی فضائی حملوں میں شہری ہلاکتوں کا جو اعتراف کیا ہے، وہ مشروط بھی ہے اور سویلین ہلاکتوں کی تعداد بھی بہت کم بتائی گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ’سینٹ کوم‘ (Centcom) کہلانے والی امریکی فوج کی کمان نے ایک ماہ تک مختلف اعداد و شمار کے تجزیوں اور رپورٹوں کے جائزوں کے بعد کہا ہے کہ گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے میں شام اور عراق میں جتنے بھی فضائی حملے کیے گئے، ان میں سے صرف 24 فضائی حملوں میں 119 عام شہری بھی مارے گئے ہوں گے۔

اس کے برعکس برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم ایک غیر سرکاری مبصر تنظیم ’ایئرویز‘ کا اندازہ ہے کہ گزشتہ قریب 27 ماہ کے دوران داعش کے خلاف امریکی جنگی حملوں میں اب تک 1787 عام شہری مارے جا چکے ہیں۔

Syrien Aleppo Männer in Trümmern mit Säuglingen
شامی شہر حلب کے نواح میں داعش کے خلاف ایک مبینہ امریکی فضائی حملے میں ہونے والی تباہی کے بعد دو شامی شہری شیرخوار بچوں کو اٹھائے ہوئے وہاں سے نکلتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi

’سینٹ کوم‘ کے بیان کے مطابق امریکی فوج کے کرنل جان تھامس کا کہنا ہے، ’’ہماری ایسی ٹیمیں موجود ہیں، جن کا کل وقتی کام یہ ہے کہ فضائی حملوں میں شہری ہلاکتوں کو روکا جائے۔ ہم ایسی اموات کو روکنے کی پوری کوششں کرتے ہیں، جو اس لیے دیکھنے میں آتی ہیں کہ کبھی کبھی طے شدہ ہدف کو نشانہ بنانے میں غلطی ہو جاتی ہے۔‘‘

کرنل جان تھامس کے بقول، ’’پینٹاگون کی طرف سے چھان بین سے پتہ چلا ہے کہ ایسے ہر فضائی حملے میں، جو عام شامی یا عراقی شہریوں کی اموات کی وجہ بنا، حملوں سے قبل ’مسلح تنازعے سے متعلق قانون‘  کا پورا خیال رکھا گیا تھا لیکن اس کے باوجود نتائج ایسے رہے کہ ان پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق امریکا نے، جس کے جنگی طیارے عراق اور شام میں داعش کے اہداف پر اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف کیے جانے والے فضائی حملوں میں سے 80 فیصد کارروائیاں خود کرتے ہیں، یہ بھی کہا ہے کہ وہ ممکنہ شہری ہلاکتوں کی تعداد کو کم سے کم رکھنے کے لیے صرف ایسے ہتھیار استعمال کرتا ہے، جو ٹھیک نشانے پر جا کر اپنے ہدف کو تباہ کر سکتے ہوں۔

Luftangriff auf die Mühlen von Manbij
شامی صوبے حلب کے شہر منبج میں داعش کے خلاف ایک امریکی فضائی حملے کے بعد لی گئی ایک تصویرتصویر: Reuters/R. Said

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق امریکی قیادت میں عسکری اتحاد کے صرف شام میں داعش کے اہداف پر کیے جانے والے حملوں میں اب تک کم از کم 300 عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔

اے ایف پی نے یہ بھی لکھا ہے عراق میں  موصل اور شام میں الرقہ کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے کی جانے والے فوجی کارروائیوں کی تیاری کے دوران 2015 کے اواخر سے وہاں امریکا کی قیادت میں اتحادی جنگی طیاروں کے حملوں کے ساتھ ساتھ روسی فضائیہ کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں بھی شہری ہلاکتوں کی تعداد واضح طور پر زیادہ ہو چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں