1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے امداد غائب

عاطف توقیر ایسوسی ایٹڈ پریس
14 ستمبر 2017

حکومتی ادارے اور امدادی تنظیمیں کے مطابق لبنان، اردن اور ترکی میں مقیم شامی بچوں کی تعلیم کے لیے اعلان کی جانے والی امداد غائب ہے۔

https://p.dw.com/p/2jxsA
Die Integration von Flüchtlingen in der Türkei
تصویر: DW/D. Cupolo

لبنان، اردن اور ترکی میں موجود نصف ملین سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم  ہیں اور گزشتہ برس اس کی ایک بڑی وجہ سرمائے کی کمی تھی۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ ان مہاجرین بچوں کے لیے تعلیم کی مد میں دی جانے والی لاکھوں ڈالر کی امداد غائب ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق لبنان، اردن اور ترکی میں اسکول جانے کی عمر کے نصف ملین سے زائد بچوں کی تعلیم تک رسائی ممکن نہیں۔ ان تین ممالک میں شامی مہاجر بچوں کی مجموعی تعداد 16 لاکھ کے قریب ہے۔

 شامی مہاجر بچوں کے ليے تعلیمی ادارے کے قیام کا اعلان

ایک تہائی افغان بچے تعلیم سے محروم: سیو دی چلڈرن

اردن میں بلآخر شامی بچے اسکول جا سکیں گے

لبنان میں شامی مہاجر بچوں کی کلاسیں مکمل طور پر بھری ہوئی ہیں اور اسکولوں کی کمروں کی کمی کی وجہ سے وہاں آدھے دن کی شفٹیں چلائی جا رہی ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم مہیا کی جا سکے۔ تاہم اس کے باوجود لاکھوں بچے اب تک تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے بچے مختلف جگہوں پر مشقت میں مصروف ہیں اور انہیں کام چھڑوا کر تعلیم کی جانب راغب کرنا مشکل معاملہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بچوں کو تعلیمی مراکز تک پہنچنے اور اسکولوں میں انہیں تحفظ کا احساس دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ امداد کا غائب ہونا ہے۔ یعنی مختلف ممالک نے اس سلسلے میں جتنا سرمایہ مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا، اتنا مہیا کیا نہیں۔

ہر تیسرا افغان بچہ سکول نہیں جا رہا

امریکی حکومتی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے مطابق گزشتہ برس اردن کو اس مد میں 248 ملین ڈالر دیے گئے، تاہم اردن کی حکومت کے مطابق اسے صرف 31 ملین ڈالر ملے ہیں۔

اردن کی امدادی تنظیمیں بھی 25 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو پر کر کے شامی بچوں کو اسکولوں تک رسائی دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شامی بچوں کے لیے دی جانے والی عالمی امدادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ برس 2016 ملین ڈالر کے وعدے کیے گئے تھے، تاہم مہیا صرف 97 ملین ڈالر کیے گئے۔