1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بحران پر روس اور ایران کا مؤقف ایک ہے، کریملن

عاطف بلوچ23 نومبر 2015

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے آج بروز پیر اپنے ایک روزہ دورہ ایران کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات میں کہا کہ عالمی طاقتوں کو شامی عوام کی رائے کو اہمیت دینا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1HAjO
Iran Russland Putin bei Khamenei
تصویر: Khamenei.ir

خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن پیر تیئس نومبر کو تہران پہنچے، جہاں وہ ایران کے ساتھ باہمی تعلقات کے علاوہ شامی بحران پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔ اس موقع پر انہوں نے شام میں قیام امن کے لیے بین الاقوامی منصوبہ جات کو بھی زیر بحث لائے۔

روس نے کہا ہے کہ شام کے معاملے پر ماسکو اور تہران حکومتوں کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے آج اپنے ایک روزہ دورہ ایران کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات میں کہا کہ عالمی طاقتوں کو شامی عوام کی رائے کو اہمیت دینا چاہیے۔

اس ملاقات کے بعد کریملن کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران اور روس نے اتفاق کیا ہے کہ عالمی برداری کو شامیوں پر اپنی سیاسی ترجیحات کو نہیں تھونپنا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے کہا ہے کہ شام میں قیادت کی تبدیلی الیکشن کے ذریعے عمل میں آنی چاہیے۔

گزشتہ آٹھ سالوں بعد پوٹن پہلی مرتبہ شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملک ایران کا دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے پیر کے دن اپنے اس ایک روزہ دورے کے دوران تہران میں ایرانی سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای سے تفصیلی ملاقات کی۔ یہ امر اہم ہے کہ ماسکو حکومت بھی اسد کی حلیف ہے۔

گزشتہ ستمبر سے روس نے بھی شام میں انتہا پسند گروہ داعش اور دیگر جہادی گروپوں کے خلاف عسکری کارروائی شروع کر دی تھی۔ اتوار کے دن ہی شامی صدر نے اس فوجی مداخلت کو اہم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ روسی جنگی طیاروں کی کارروائیوں کے باعث شامی افواج متعدد محاذوں پر کامیاب پیشقدمی کرنے کے قابل ہو چکی ہے۔

پیرس حملوں کے بعد عالمی برداری سنی انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف اور زیادہ متحد ہو گئی ہے۔ اس تناظر میں امریکا اور روس نے بھی رابطہ کاری پر اتفاق رائے ظاہر کر دیا ہے۔

روسی صدر کا دورہ ایران بھی داعش کے خلاف کارروائیوں کو مزید مربوط بنانے کے حوالے سے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں تہران پہنچیں ہیں، جب وہاں گیس برآمد کرنے والے ممالک کی ایک سمٹ منعقد کی جا رہی ہے۔

Russland Iran Treffen Putin Rohani
روسی اور ایرانی صدور دونوں ہی شامی صدر بشار الاسد کے حامی ہیںتصویر: picture alliance/dpa/S. Krasilnikov

روسی صدر پوٹن نے پیر کے دن ہی ایران پرعائد ایسی پابندیوں کو ختم کرنے کا حکم نامہ بھی جاری کر دیا، جس کے تحت روسی کمپنیوں کو ایران کی یورنیم افزودہ کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے پر روک لگائی گئی تھی۔ ان پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں اب روسی کمپنیاں ایران میں قائم سینٹری فیوجز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جولائی میں طے پانے والے تاریخی جوہری معاہدے کے نتیجے میں تہران حکومت پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جا رہی ہے، جس کے جواب میں ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود بنانے کا عہد کیا ہے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ پر امن مقاصد کے لیے وہ اپنا جوہری پروگرام ترک نہیں کرے گا۔ عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات کے معائنے سے معلوم ہو سکے گا کہ آیا وہ اس عالمی ڈیل پر عمل پیرا ہو رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں