1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاست دانوں کی کمزوری سے فوج کا راستہ ہم وار، سراج الحق

عاطف توقیر22 اگست 2016

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہر مارشل لاء نے ملکی جغرافیے کو نقصان پہنچایا اور جمہوریت کو ہر حال میں مضبوط ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1Jmwv
Pakistan Religionsführer Siraj Ul Haq
تصویر: DW/A. Khan

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت ملک کے جمہوری تشخص کے لیے بدنما داغ ہے۔‘‘

ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ متعدد افراد کی گم شدگیوں میں ملوث ہیں، اس پر ان کی کیا رائے ہے تو سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا، ’’ہمارا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ ایسی صورت میں ہر حال میں مقدمات چلائے جانا چاہیں اور ماورائے عدالت کوئی کارروائی نہیں کی جانا چاہیے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ بلوچستان اور دیگر مقامات پر ملکی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھائی جاتی، جماعت اسلامی کے امیر نے کہا، ’’فوج کو ہر حال میں اپنے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے، مگر ظاہر ہے کہ پاکستان میں فوج ایک حقیقت ہے اور اس کے اثرات ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں، خصوصی طور پر افغانستان کے معاملے میں بھی اور کشمیر کے معاملے میں بھی چیزیں فوج کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر ظاہر ہے ملک کے دیگر اندرونی معاملات میں فوج کی مداخلت کی ایک وجہ کمزور سیاسی قیادت ہے۔ سیاست دانوں کا اپنا کردار ٹھیک نہیں ہے۔ اسی لیے یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملا لیتے ہیں کہ آپ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہم آپ کو اپنا کام کرنے دیں گے۔‘‘

Pakistan Bombenanschlag in Hazara mit 89 Toten
مذہبی جماعتوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی پرزور مذمت میں پس و پیش سے کام لیتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

ان کا مزید کہنا تھا، ’’جمہوری دور جیسا بھی ہو، اس میں بات سنی جاتی ہے۔ احتجاج کے راستے بھی کھلے ہوتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق بھی بحال ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو کوشش کرنا چاہیے کہ ملک میں جمہوری اقدار مضبوط ہوں۔‘‘

مذہبی سیاسی جماعتوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردانہ واقعات میں ملوث شدت پسندوں کی واضح الفاظ میں مذمت نہیں کرتیں۔ کوئٹہ حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد وکلاء کی تھی، تاہم مذہبی جماعتوں کی جانب سے واقعے کی مذمت تو کی گئی، مگر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم داعش کی مذمت کرنے سے پھر بھی اجتناب برتا گیا۔ اس حوالے سے سینیٹر سراج الحق نے کا بھی کہنا تھا، ’’ہمارے ملک جب بھی کوئی دھماکا ہوتا ہے، تو اس کی ذمہ داری ایک نہیں، بعض اوقات تو کئی کئی تنظیمیں قبول کر لیتی ہیں۔ ہم نے خود اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لے اور اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کرے۔ دہشت گردانہ واقعات تو ہو رہے ہیں، مگر عوام اس بارے میں یک سو نہیں ہیں کہ ان کے درپردہ کون ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’حکومت کی جانب سے بعض بیانات میں کہا گیا ہے کہ کہ اس میں بھارت کا ہاتھ ہے، مگر واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے۔ اس بارے میں حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو معلوم ہوکہ اصل لڑائی کس کے خلاف ہے۔‘‘‘

Pakistan Corps Commanders Conference
انہوں نے کہا کہ فوج کی سیاست میں مداخلت سے ملک کو نقصان پہنچتا ہےتصویر: ISPR

بنگلہ دیش میں حالیہ کچھ عرصے میں جماعت اسلامی کے متعدد اہم اور سینیئر رہنماؤں کو دی جانے والے موت سمیت سخت ترین سزاؤں کے حوالے سے سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا، ’’بنگلہ دیش میں جو فراڈ ٹریبیونل ہے، اس کی مذمت بشری حقوق کی تنظمیوں نے بھی کی ہے اور دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں نے بھی۔ وہاں جماعت اسلامی ایک زمینی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت اسے سیاسی طور پر شکست دینے کی بجائے اس طرز کے اقدامات کے تحت نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن ظاہر ہے آپ کسی انسان کو تو قتل کر سکتے ہیں مگر اس کی فکر اور نظریے کو ختم نہیں کر سکتے۔‘‘