1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان میں صحت کے بارے آگاہی اور علاج کے لئے ریڈیو کا انوکھا استعمال

رپورٹ:تنویز شہزاد، ادارت:افسراعوان15 مئی 2009

سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں قائم کیا جانے والا پہلا افریقی میڈیکل ریڈیو طبی معلومات اور بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی پھیلانے میں موثر کردار ادا کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/HrMO
پناہ گزین طبی امداد کے منتظرتصویر: AP

چند ماہ قبل قائم کیا جانے والا یہ میڈیکل ریڈیو افریقہ اور عرب دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ایف ایم ریڈیو اسٹیشن ہے جو سائنسی اور طبی معلومات کو عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچانے کے لئے خدمات سر ا نجام دے رہا ہے۔ اس میڈیکل ریڈیو کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والا بیشتر عملہ پروفیسروں ، ڈاکٹروں اور میڈیکل کے طلبہ پر مشتمل ہے۔

ریڈیو پروگراموں میں سوال پوچھنے والے میزبان ہوں یا جواب دینے والے ماہرین ، یہاں کام کرنے والے سب لوگ طبی پس منظر کے حامل ہیں۔ یہ میڈیکل ریڈیو ماحول کی بہتری ، حفظان صحت کے اصولوں اور بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے اپنے سامعین کو معلومات فراہم کرتا ہے۔

Flüchtlinge im Sudan warten auf Essensausgabe
خواتین اشیائے خوراک کے حصول کے لئے کھڑی ہیںتصویر: AP

خرطوم میڈیکل یونیورسٹی کے نائب صدر حافظ محمد حمیدا نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ مفید معلومات جو اس میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ تک پہنچ رہی ہیں، اگر یہ معلومات عام فہم انداز میں عام لوگوں تک بھی پہنچا دی جائیں تو اس سے لوگوں کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔

حافظ محمد کے مطابق اس ریڈیو اسٹیشن کا ایک مقبول پروگرام " ہیلو ڈاکٹر " کے نام سے نشر کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام میں طبی یونیورسٹی کے اساتذہ لائیو ٹیلیفون کالز کے ذریعے لوگوں کو طبی مشورے فراہم کرتے ہیں۔ وہ سامعین جو پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور ٹیلیفون گفتگو کے ذریعے جن کی طبی مشکلات کا حل ڈھونڈنا آسان نہیں ہوتا، یہ ریڈیو ایسے سامعین کو خصوصی پاس جاری کرتا ہے جسے دکھا کر وہ یونیورسٹی کے بڑے ہسپتال میں کسی بھی کنسلٹنٹ ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر مفت طبی امداد حاصل کر سکتے ہیں۔ خرطوم کے اس میڈیکل ریڈیو کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ اپنی تکنیکی مشکلات کے حل کے لئے غیر ملکی معاونت کا متمنی ہے۔

پاکستان کے ممتاز طبی سائنسدان اور پشاور یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق کا کہنا ہے کہ خرطوم کے میڈیکل ریڈیو کی طرح کے ادارے اگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملکوں میں قائم کئے جا ئیں تو یوں بیماریوں سے بچاؤ میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان جیسے ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں عوام کو بیماریوں سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر سے مکمل آگہی نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کر کے نہ صرف 60 سے 70 فیصد تک بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ دواؤں اور صحت کے شعبے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔

Hunger in Sudan
سوڈانی بچی کو طبی امداد دی جارہی ہےتصویر: AP

ڈاکٹر نجیب الحق کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والے انفیکشن HIV، ڈینگی بخار، سانسں کے امراض اور ہیپاٹایٹس سی جیسی بیماریوں پر احتیاطی تدابیر اختیار کر کے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے صاف ستھری غذا کی اہمیت اجاگر کر کے اور حفظان صحت کے اصولوں کے حوالے سے عوام کو آگاہی فراہم کر تے ہوئے بھی بہت سے امراض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر نجیب الحق کے بقول ریڈیو ایک مقبول ذریعہ ابلاغ ہے جسے پہاڑوں، کھیتوں ، کھلیانوں، دیہاتوں اور سڑکو ں پر دلچسپی سے سنا جاتا ہے۔ ریڈیو جدید سائنسی اور طبی تحقیق کو عام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔ "پاکستان میں میڈیکل ریڈیو قائم کئے جانا چاہیئں اور حکومت کو نہ صرف ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ اس ضمن میں طریقہ کار کو بھی سہل بنایا جانا چاہیے۔"