1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں نظام عدل ملکی آئین سے متصادم ہے یا نہیں

امتیاز گل ، اسلام آباد16 اپریل 2009

کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد کی طرف سے شرعی عدالتوں کے فیصلے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کیے جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/HYSm
سوات میں طالبان نے پہلے ہی متوازی عدلیہ قائم کر رکھی تھیتصویر: AP

اس اعلان نے ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات اور آئین پاکستان کی عملداری کے حوالے سے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔

مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ سخت گیر مقامی طالبان قیادت کے بیانات سے یہ اندازہ بھی لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنی شرائط پر سوات امن معاہدہ کیا ہے بلکہ وہ یہاں پر صحیح معنوں میں ایک متوازی عدالتی نظام قائم کرچکے ہیں جبکہ قانونی ماہرین کی رائے میں شرعی عدالتوں کے فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج نہ کئے جانے کی پابندی آئین سے متصادم ہے۔ اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا :

’’ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ کسی اپیل پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو اختیار نہ ہو گا پھر تو بالکل تصادم ہے۔‘‘

خیال رہے کہ تحریک طالبان سوات کے ترجمان مسلم خان پہلے یہ اعلان کر چکے ہیں کہ نظام عدل کے نفاذ کے باوجود طالبان ہتھیار نہیں پھینکیں گے اور نہ ہی کسی طالب پر حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے حوالے سے کوئی مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس صورت حال پر امریکہ اور مغربی ممالک یہ کہہ کر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس معاہدے کے ذریعے عسکریت پسند اپنی قوت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ البتہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت اس معاہدے پر محض اس وجہ سے متفق دکھائی دیتی ہے کہ ان کے خیال میں اس طرح سوات کا امن بحال ہو جائے گا اور شاید اسی سبب میاں نواز شریف نے جمعرات کے روز پارٹی اجلاس کے بعد سوات کے حوالے سے کئے جانے والے حکومتی اقدامات کو سراہا۔

’’ یہ اجلاس صوبہ سرحد خصوصا سوات اور قبائلی علاقہ جات میں امن کے قیام کی کوششوں اور اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہتا ہے۔‘‘

کئی تجزیہ نگار اس بات پر البتہ حیران اور پریشان ضرور ہیں کہ 342 ارکان کی قومی اسمبلی میں سے 120سے بھی کم ارکان کی حمایت سے منظور ہونے والی قرارداد کو پارلیمانی حمایت قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف تحریک طالبان نے نظام عدل کو چترال تک پھیلانے کا واضح اعلان کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت جلد دیر، بونیر، کوہستان اور چترال ایسے علاقوں میں بھی صوبائی حکومت کی آئینی عملداری براہ راست چیلنج ہو جائے گی۔