’سمندر انسان نگلتا اور لاشیں اگلتا ہوا‘
15 جنوری 2016شدید سردی اور ترک حکومت کے اقدامات کے باوجود یورپی یونین میں داخلے کے لیے بحیرہ ایجیئن کے خطرناک سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوششیں کرنے والے افراد کی تعداد میں کوئی نمایاں کمی نہیں دیکھی گئی۔
ترک ساحلی صوبے ازمیر کے علاقے سیفرہسار سے ایک خاتون اور پانچ مردوں کی لاشیں ملی ہیں۔ حکام کے مطابق منگل کے روز ملنے والی یہ لاشیں پانچ سے دس روز قبل ڈوب جانے والے مہاجرین کی تھیں۔
ترک کوسٹ گارڈز کے مطابق ایک الگ واقعے میں انہیں ایک بچی اور دو خواتین کی لاشیں ایواچک کے علاقے سے بھی ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کوسٹ گارڈز نے گنجائش سے زیادہ بھری ایک کشتی سمندر برد ہونے پر 13 افراد کو ریسکیو کیا، جب کہ مزید دو مردوں اور ایک بچے کی تلاش جاری ہے۔
گزشتہ برس ایک ملین سے زائد افراد یورپی یونین پہنچے تھے، جن کا تعلق مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے غریب اور جنگ زدہ علاقوں سے تھا۔ ان تارکین وطن کی بڑی تعداد نے ترکی سے بحیرہ ایجیئن کے راستے یونان میں داخلے کی کوشش کی۔ اس دوران قریب 37 سو مہاجرین سمندر میں ڈوب گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب سردی شدت پکڑ چکی ہے اور یہ سمندری راستہ مزید خطرناک ہو چکا ہے، مہاجرین کی جانب سے ترکی سے یورپ میں داخلے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں ماہ کے پہلے دو ہفتوں میں 24 ہزار سے زائد مہاجرین یونان اور اٹلی پہنچ چکے ہیں، جب کہ 12 جنوری تک مزید 58 مہاجرین اس کوشش میں سمندری لہروں کی بے رحمی کے سامنے اپنی زندگیاں ہار گئے۔
روئٹرز کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو فوٹیج کے مطابق بچوں سمیت 70 مہاجرین کے ایک گروپ کو ترک علاقے ایواچک سے اس خوف ناک سفر سے قبل کوسٹ گارڈز نے روک لیا۔ ایک اور فوٹیج میں خواتین اور بچوں سمیت تارکین وطن کے ایک اور گروپ کو شدید سردی کے باوجود ایک خستہ حال کشتی اور چپوؤں کی بجائے بیلچے استعمال کرتے ہوئے سمندر عبور کرنے کی تیاری کرتے دیکھا گیا۔ روئٹرز نے لکھا ہے کہ 100 افراد کا یہ گروپ بعد میں یونان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔