1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلمان رشدی کے ناول پر فلم

22 اپریل 2013

اپنی تصانیف کی وجہ سے متنازعہ رہنے والے مصنف سلمان رشدی ان دنوں دیپا مہتا کی ہدایت کاری میں فلمائے جانے والے اپنے ناول ’مڈنائٹس چلڈرن‘ کی تشہیر کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

https://p.dw.com/p/18KWH
تصویر: Indranil Mukherjee/AFP/Getty Images

یہ فلم رشدی کے 1980کی دہائی میں لکھے گئے ناول پر مبنی ہے، رشدی کے اس انعام یافتہ ناول میں بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی شخصیت اور اس وقت کے بھارتی معاشرےکا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رشدی کی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب 'Joseph Anton' بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ سلمان رشدی نے اس کتاب میں اس زمانے کی قصے بیان کیے ہیں، جب وہ قتل کیے جانے کی خوف کے سبب جعلی نام 'Joseph Anton' کے ساتھ جی رہے تھے۔

سلمان رشدی کو اس کے متنازعہ ناول ’سیٹینک ورسز‘ کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک میں انہیں’ توہین رسالت کا مرتکب‘ قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حقدار ٹہرایا گیا تھا۔ ایرانی سپریم رہنما آیت اللہ خمینی کی جانب سے 1989ء میں متنازعہ کتاب لکھنے پر قتل کا فتویٰ جاری ہونے بعد رشدی تقریبا دس سال تک روپوش رہے تھے۔ سلمان رشدی کو ان کے موضوعات کی وجہ سے ایک ایسا مصنف کہا جاتا ہے، جسے اتنا پڑھا نہیں جاتا جتنا ان پر بحث کی جاتی ہے۔

Bilder zum Film Midnight's Children von Deepa Mehta
’مڈنائٹس چلڈرن‘ کی ہدایت کارہ دیپا مہتاتصویر: Leon Neal/AFP/Getty Images

سلمان رشدی کے ناول مڈنائٹس چلڈرن پر مبنی فلم میں بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ سلمان رشدی نے یہ ناول 1981 میں لکھا تھا، اس کے صلے میں انہیں ’بُکر پرائز‘ بھی دیا گیا اور عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ 500 صفات پر مشتمل اس ناول میں بھارت کے قیام سے لیکر 70 کی دہائی تک پیش آنے والے واقعات کا عکس ملتا ہے۔ یہ کہانی ایک بچے کے گرد گھومتی ہے جو بھارت کی آزادی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو ملکی حالات کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

رشدی کی تحریوں کو اس پہلے کبھی بھی نہیں فلمایا گیا۔ ’مڈنائٹس چلڈرن‘ کی عکس بندی 140منٹس پر محیط ہے جوکسی بھی عام فلم سے طویل ہے۔ اس طوالت کے باوجود بھی یہ فلم ہر اس واقعے کا احاطہ نہیں پر پائی جو ناول میں موجود تھا۔ فلم کا اختتام بھی ناول سے مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ رشدی کا خیال تھا کہ فلم کو اس انداز میں ختم ہونا چاہیے کہ یہ ایک نئے دور کے آغاز کا پیغام دے۔

zb/ai(AP)