1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کے شیعہ علاقوں میں احتجاجی مظاہرے

امتیاز احمد7 جنوری 2016

شیعہ مذہبی رہنما شیخ النمر کی پھانسی کے بعد سے سعودی عرب کے ہزاروں شیعہ مظاہرین ہر رات مظاہرے کر رہے ہیں۔ دریں اثناء ایران نے الزام عائد کیا ہے کہ سعودی جنگی جہازوں نے یمن میں اس کے سفارتخانے پر بمباری کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HZjS
Iran Protest in Teheran gegen Hinrichtung in Saudi-Arabien
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

تیل کی پیداوار کے لحاظ سے مشہور سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں بدامنی پھیلنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔چند روز پہلے سعودی عرب نے ایک ہی دن میں سینتالیس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور ان میں سے چار کا تعلق شیعہ اقلیت سے تھا۔ سب سے زیادہ احتجاج مذہبی رہنما النمر کی پھانسی پر کیا گیا اور اس شیعہ رہنما کے آبائی علاقے قطیف میں بھی حالات بدامنی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ قطیف میں آباد شیعہ کمیونٹی کے مطابق النمر کی سزائے موت غیرمنصفانہ ہے۔

قطیف کی شیعہ کمیونٹی کے ایک لیڈر کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ لوگ سراپا احتجاج ہیں اور حیران بھی ہیں، کیوں کہ گزشتہ چند مہینوں میں ایسے مثبت اشارے دیے گئے کہ ان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ لوگ ان کی تقریریں سنتے تھے اور ایسے کوئی بھی شواہد نہیں ہیں کہ وہ پرتشدد تھیں۔‘‘

تیل پیدا کرنے والے مشرقی صوبے کے علاقے قطیف کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی زیادہ تر آبادی شیعہ عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ پرامن رہا ہے لیکن گزشتہ چند روز میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ اور فائرنگ کا واقعہ بھی وہاں ہی پیش آیا ہے۔

تیل کی بڑی تنصیبات قطیف کے قریب ہی واقع ہیں جبکہ ریاستی انرجی کمپنی آرامکو کے ملازمین کی رہائشیں بھی قطیف کے مضافات ہی میں واقع ہیں۔ ان تنصیبات کو ماضی میں تو کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن منگل پانچ جنوری کی شب مظاہرین نے اس کمپنی کی ایک بس کو نذر آتش کر دیا تھا۔

تمام مظاہرین ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے، ’’آل سعود مردہ باد‘‘۔ اس احتجاجی مظاہرے کی ویڈیو انڑنیٹ پر بھی ریلیز کی گئی ہے، جس میں کاروں پر فائرنگ کرتے ہوئے مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے۔

النمر کے گاؤں کے ایک رہائشی کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’میں نے گزشتہ رات تو فائرنگ کی آوازیں نہیں سنیں لیکن اس سے پہلی دو راتوں کو فائرنگ کی جاتی رہی ہے۔‘‘

ریاض حکومت نے صحافیوں کو سرکاری حکام کی ہمراہی کے بغیر قطیف جانے سے منع کر رکھا ہے۔ حکام کے مطابق ایسا سکیورٹی اور صحافیوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق احتجاجی مظاہرے مزید پھیلیں گے یا ختم ہو جائیں گے اس کا انحصار سعودی ردعمل اور مظاہرین پر ہے۔ اگر مظاہرے پرامن رہے تو یہ خود بخود اپنے خاتمے کی طرف چلے جائیں گے اور اگر سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کیا تو مزید اشتعال پیدا ہوگا۔

دریں اثناء تہران حکومت نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی جنگی جہازوں نے ’جان بوجھ کر‘ یمن میں ان کے سفارتخانے کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے متعدد سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب کی اتحادی فورسز کے ایک ترجمان نے کہا ہے ایران کی اس الزام کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ بدھ کی رات صنعاء میں ان کے سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بریگیڈیئر جنرل احمد عصری کا کہنا تھا کہ بدھ کی رات دارالحکومت میں ان مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن کو حوثی باغی میزائل لانچ کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔