1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سعودی عرب کو اعتدال پسند بنانے کا وعدہ کرتا ہوں‘

25 اکتوبر 2017

سعودی عرب کے طاقتور کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو ’اعتدال پسند اور وسیع النظر‘ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ قدامت پسند مذہبی رہنماؤں کی بجائے غیرملکی سرمایہ کاروں اور سعودی نوجوانوں کو اہمیت دینا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2mTjX
Saudi-Arabien Prinz Mohammad bin Salman al-Saud
تصویر: picture-alliance/AA/Bandar Algaloud/Saudi Royal Council

سعودی عرب کے بتیس سالہ طاقتور شہزادے نے محتاط الفاظ میں اس بادشاہت کی نئی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ گزشتہ روز ان کا یہ بیان بحيرہ احمر کی شمال مغربی ساحلی پٹی پر پانچ سو ارب ڈالر مالیت کے ايک آزاد اقتصادی زون کے قیام کے چند ہی گھنٹوں بعد سامنے آیا۔

ریاض میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے محمد بن سلمان کا کہنا تھا، ’’ہم ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی زندگی جس میں ہمارا مذہب رواداری اور برداشت جیسی ہماری روایتوں کی ترجمانی کرتا ہے۔‘‘

محمد بن سلمان: ایک اصلاحات پسند لیکن سخت گیر لیڈر

ان کا مزید کہنا تھا، ’’سعودی عرب کی ستر فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر ہے اور یقین کیجیے ہم اپنی آئندہ زندگی کے تیس برس تباہ کن خیالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہیں گزارنا چاہتے۔ ہم انہیں (تباہ کن خیالات) کو آج اور ایک ہی مرتبہ ختم کر دینا چاہتے ہیں۔‘‘

حاضرین میں ستائیس سالہ سعودی پالیسی کنسلٹنٹ عبدالعزیز بھی موجود تھے۔ سعودی عرب کی اس نئی پالیسی کے حوالے سے ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سعودی عرب میں نئی سیاسی اور سماجی پالیسی کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ سعودی عرب اعتدال پسند اسلام اور روادار معاشرے کی اپنی ماضی کی روایات کی طرف جا رہا ہے۔‘‘

’خواتین کی ڈرائیونگ کی اجازت کا فیصلہ سعودی معاشرہ کرے گا‘

پرنس محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کو 1979ء سے پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا اشارہ سن 1975ء میں شاہ فیصل کے قتل کے بعد سن 1979ء کے دوران اس ملک میں شروع ہونے والے سیاسی اسلام کی طرف تھا۔

ستر کی دہائی کے اوائل میں تیل کے دولت سے مالا مال اس ملک میں سماجی سطح پر کئی تبدیلیاں لائی گئی تھیں۔ اس وقت نہ صرف ٹیلی وژن متعارف کروایا گیا تھا بلکہ بچیوں کے لیے اسکولوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ لیکن یہ تبدیلیاں اس وقت روک دی گئی تھیں، جب سعودی عرب میں معاشرتی اور مذہبی امور کو کنٹرول کرنے والے الشیخ خاندان اور برسر اقتدار السعود خاندان نے قدامت پرست پالیسیوں کو مضبوط بنانا شروع کیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق محمد بن سلمان کا یہ بیان سعودی عرب کے قدامت پسند حلقوں کے لیے ایک ایسا واضح چیلنج ہے، جسے اُن کے لیے آسانی سے قبول کرنا مشکل ہوگا۔