1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب جدید امریکی اسلحہ خریدنے پر تیار

عاطف بلوچ، روئٹرز
23 نومبر 2017

سعودی عرب نے امریکی دفاعی کانٹریکٹرز سے سات بلین ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ خریدنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس ڈیل کے تحت ریاض حکومت اہداف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے والا گولہ بارود خریدے گی۔

https://p.dw.com/p/2o6gC
Jemen Saudi Arabien Grenze Panzer Archiv
تصویر: Handley/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سعودی سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب نے امریکی دفاعی کانٹریکٹرز سے سات بلین ڈالر کا جدید اسلحہ خریدنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ تاہم امریکا میں کئی قانون دان اس ڈیل پر اعتراض کر سکتے ہیں کیونکہ سعودی عرب امریکا سے حاصل کردہ اسلحہ یمن جنگ میں بھی استعمال کر رہا ہے اور وہاں سعودی عسکری اتحاد کی فوجی کارروائیاں شہری ہلاکتوں کا باعث بن رہی ہیں۔

ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب، ’سو بلین ڈالر کا اسلحہ بھی تیار‘

سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی، برطانیہ تنقید کی زد میں

امریکہ ۔ سعودی عرب اسلحہ ڈیل: محرکات کیا ہیں؟

یمنی خانہ جنگی کی تباہ کاریاں

روئٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مئی میں دورہ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک نے 110 بلین ڈالر کے عسکری معاہدے کیے تھے اور یہ ڈیل بھی انہی بڑے معاہدوں کا ایک حصہ ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ریاض حکومت شہری ہلاکتوں میں کمی کی خاطر بنایا جانے والا یہ جدید اسلحہ ریتھین اور بوئنگ نامی دو کمپنیوں سے خریدے گی۔ تاہم اس تناظر میں زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اسلحہ کی فروخت امریکا میں ایک حساس معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ امریکی کمپنیوں کی طرف سے اسلحہ کی ایسی ڈیلز کو حتمی شکل دینے سے قبل کانگریس کی منظوری بھی لازمی ہے۔

ابھی تک امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی اس ڈیل پر کانگرس کو اعتماد نہیں لیا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کے مطابق ایسی کسی بھی ڈیل سے قبل تمام امور کو اچھی طرح پرکھا جائے گا۔

مارچ سن دو ہزار پندرہ سے یمن میں جاری خانہ جنگی کے سبب کم از کم پانچ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر ہو چکی ہے۔ ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری اتحاد برسر پیکار ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق سعودی اتحاد کی کارروائیوں کی وجہ سے بیشمار شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔ ایسی خبروں پر عالمی سطح پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم سعودی عرب ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ وہ شہری علاقوں پر بمباری کر رہا ہے۔

کچھ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے اہداف کو انتہائی سرعت سے نشانہ بنانے والے اس اسلحے کے باعث یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری سعودی عسکری کارروائی میں شہری ہلاکتوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

تاہم واشنگٹن میں سیکورٹی ماہر ڈیوڈ ڈیس روخیز کا کہنا ہے کہ اس جدید اسلحے کے حصول کے بعد بھی سعودی حکام کے رویے میں کسی قسم کی لچک کی امید نہیں کی جا سکتی ہے، ’’سعودی عرب نے ظاہر کر دیا ہے کہ ہم جو بھی سوچیں اور کہیں لیکن وہ یمن میں جنگ جاری رکھے گا۔‘‘