1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سزائے موت کے خاتمے کی سست رفتار عالمگیر تحریک

10 اکتوبر 2010

پوری دُنیا میں بدستور انسانوں کو سنگین جرائم پر موت کی سزا دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1966ء ہی میں یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ سزا انسانی حقوق سے کم ہی مطابقت رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/PaN2
تصویر: AP

اِس کے باوجود ایران، چین، امریکہ اور سعودی عرب میں موت کی سزاؤں پر بدستور عملدرآمد ہو رہا ہے۔ اگرچہ اس سزا کے خلاف عالمگیر تحریک بدستور آگے بڑھ رہی ہے تاہم اِس کی رفتار کافی سست ہے۔

Flash-Galerie Die Macht der digitalen Bilder
ایران میں گزشتہ برس 388 افراد کو سزائے موت دی گئیتصویر: AP

سزائے موت کے خاتمے کی عالمگیر تحریک کی رفتار سست ضرور ہے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران اِس میں تسلسل کے ساتھ پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ حقوقِ انسانی کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ برائے سال 2009ء میں بتایا گیا ہے کہ اب تک مجموعی طور پر 95 ممالک اپنے ہاں باقاعدہ قانون تشکیل دیتے ہوئے اِس سزا کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، خواہ سنگین جرائم کا انتخاب امن کے دنوں میں ہوا ہو یا جنگ کے دوران۔ نو مزید ممالک میں ابھی موت کی سزا موجود ہے لیکن اُس کا اطلاق صرف جنگ کی صورت میں ہے۔ 35 ممالک ایسے ہیں، جہاں قانونی اعتبار سے سزائے موت ابھی بھی ممکن ہے لیکن وہاں کم از کم گزشتہ دَس برسوں سے موت کی کسی ایک بھی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

دو ہزار نو وہ پہلا سال تھا، جب دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی یونین اور یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ سابق سوویت یونین کے پورے علاقے میں بھی کسی ایک بھی شخص کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اِس تاریخی کامیابی تک پہنچنے میں یورپ کو کتنا وقت لگا ہے، یہ بتاتی ہیں، اقوام متحدہ میں اٹلی کی سفیر لاؤرا مِراشیان، جو ایک طویل عرصے سے موت کی سزا کے خلاف تحریک میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔

Poster des World Congress Against The Death Panalty
اس حوالے سے انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں کام کر رہی ہیں

’’اٹلی میں سزائے موت کے خلاف تحریک کی روایت بہت پرانی ہے اور ہماری ثقافت میں اِس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہمارے اِس معاشرتی رویے کے ابتدائی آثار اٹھارویں صدی میں ملتے ہیں۔ توسکانا نے پہلی ریاست کے طور پر سن 1796ء میں جنگ کے دوران سزائے موت ختم کر دی تھی۔‘‘

ایک ریاست کے اِس انفرادی اقدام کے بعد تقریباً دو سو سال گزر گئے اور کہیں 1966ء میں اقوام متحدہ میں منظور ہونے والے شہری اور سیاسی حقوق کے حقوقِ انسانی پیکیچ میں تمام رکن ممالک پر واضح طور پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے ہاں موت کی سزا ختم کریں یا اِسے محض انتہائی سنگین جرائم کی صورت میں دیں۔ تاہم اِس پیکیج کی منظوری کا زیادہ اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ عشروں سے سزائے موت کے خاتمے کے لئے سرگرم اطالوی مذہبی کمیونٹی سینٹ ایگیڈیو کے ترجمان ماریو مورازیٹی کے مطابق : ’’ستر کا عشرہ شروع ہو جانے کے بعد تک بھی دُنیا بھر میں محض 23 ممالک نے موت کی سزا ختم کی تھی۔‘‘

Logo amnesty international
اس سزا کے خاتمے کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل پیش پیش ہے

تاہم 1980ء سے اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سزائے موت کے خاتمے کا ایک نمایاں رجحان نظر آرہا ہے۔ یورپ اِس سزا کو ختم کرنے والا پہلا براعظم بن گیا۔ 1998ء میں یورپی یونین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دُنیا بھر میں سزائے موت کے خاتمے کی قرارداد پیش کی، جو بڑی طاقتوں چین اور امریکہ کے ساتھ ساتھ افریقہ اور ایشیا میں بہت سی سابقہ یورپی نوآبادیوں کی بھی مخالفت کے باعث منظور نہ ہو سکی۔ کہیں 2007ء میں سزائے موت پر عملدرآمد کے سلسلے میں عارضی پابندی کی ایک قرارداد منظور ہو سکی، جو اِس سزا کے مکمل خاتمے کی جانب پہلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2009ء میں افریقہ کے 53 ممالک میں سے صرف سوڈان اور بوتسوانہ میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد ہوا۔ امریکی براعظم پر صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اِس سزا پر عملدرآمد جاری ہے۔

سزائے موت کے حوالے سے آج کل ایشیا اور مشرقِ وُسطیٰ کی صورتِ حال سب سے خراب ہے، جہاں دو ہزار نو میں 714 افراد کو پھانسی دی گئی، اکٹھے 388 افراد کو ایران میں، 120 کو عراق میں اور 69 کو سعودی عرب میں۔ چین سزائے موت کے اعداد و شمار منظرِ عام پر نہیں لاتا تاہم اندازہ ہے کہ وہاں گزشتہ برس غالباً دو ہزار افراد کو موت کی سزا دی گئی۔

جائزہ : آندریاز سُوماخ، جنیوا / امجد علی

ادارت : عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں