1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں فائر بندی کی یورپی کوششیں بے نتیجہ

عدنان اسحاق / کشور مصطفےٰ30 اپریل 2009

فرانسیسی اور برطانوی وزرائے خارجہ پر مشتمل یورپی مصالحتی مشن سری لنکا میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت حاصل نہیں کر سکا کیونکہ شدید بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کولمبو حکومت تامل باغیوں کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/Hgp2
برطانیہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ نے کولمبو میں سری لنکا کے صدر سے ملاقات کیتصویر: AP

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور فرانسیسی وزیر خارجہ بیرنارد کوشنیر نے سری لنکا کے دورے کے دوران صدر صدر مہیندا راجاپاکشے کے علاوہ دیگر اہم رہنماوٴں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ برطانوی وزیر خارجہ نےکہا کہ جنگ بندی بحران زدہ علاقے میں محصور افراد کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ ملی بینڈ کے بقول اب وقت آگیا ہے کہ لڑائی فوری طور پر بند کی جائے۔

ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا: "تمام دنیا کی نظریں اس وقت سری لنکا پر مرکوز ہیں۔ دنیا لڑائی کا خاتمہ، شہریوں کے ساتھ بہتر سلوک اور سیاسی عمل کی صورت میں ایک ایسا حل چاہتی ہے جس میں سری لنکا کے تمام باشندے ایک ساتھ مل کر رہ رہے ہوں۔"

برطانوی وزیر خارجہ ملی بینڈ نے مزید کہا کہ تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن بند کرنے کا مطلب LTTE کے سربراہ کو تحفظ فراہم کرنا نہیں ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے کہا کہ ان کی متعدد اپیلوں کے باوجود سری لنکا حکومت تامل ٹائیگرز کے خلاف اپنا آپریشن روکنے پر تیار نہیں ہوئی۔

ملی بینڈ اور کوشنیر نے شمالی سری لنکا میں کئی پناہ گزین کیمپوں کا بھی دورہ کیا۔ اس ساری صورتحال میں سری لنکا کے صدر مہیندا راجا پاکشے انتہائی مطمئن نظر آرہے ہیں ۔ ایک بھارتی ٹیلیویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تامل باغیوں کے خلاف کارروائی اب آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔

سری لنکا کے صدر نے کہا: "میں اس کو بحران نہیں کہوں گا۔ ہاں یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ہم اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔"

Sri Lanka Flüchtlingscamp
جنگ سے متاثرہ علاقے میں شہریوں کو امدادی سامان اور خوراک کی اشد ضرورت ہےتصویر: AP

مہیندا راجاپاکشے نے مزید کہا کہ اصل کام تامل باغیوں کے خلاف آپریش کی کامیابی کے بعد شروع ہو گا یعنی متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کاکام ۔ دوسری جانب کولمبو میں موجود جرمنی کی Friedrich Ebert فاؤنڈیشن کے نمائندے Joachim Schluetter نے بتایا کہ برطانوی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ کے دورے کا مقصد جنگ بندی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہنگامی امداد پہنچانا بھی تھا۔ " امداد فراہم کی جا چکی ہے، کم از کم اقوام متحدہ کی جانب سے۔ لیکن موجودہ صورتحال کی بات کریں تو لوگوں کو بے انتہا مشکلات کا سامنا ہے۔"

Schluetter نے مزید بتایا کہ امداد مشروط نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری طرف ایسے کیمپوں میں محصور لوگوں کی حالت دیکھتے ہوئے یورپی ممالک کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ ان کی مالی امدادکریں۔

یورپی یونین، امریکہ اور بھارت سمیت کئی دیگر ملکوں کی طرف سے سری لنکا حکومت پر تامل باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کے لئے زبردست دباوٴ ڈالا جارہا ہے تاہم کولمبو حکومت ابھی تک جنگ بندی اور باغیوں کے خلاف اپنا آپریشن ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔ ا قوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شمالی سری لنکا کے جنگ زدہ علاقے میں 50 ہزار سے زائد شہری ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں