1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرفراز شاہ قتل کیس، رینجرز اہلکار کو سزائے موت

12 اگست 2011

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سرفراز شاہ قتل کیس میں ملزم شاہد ظفر کو سزائے موت اور دیگر چھ ملزمان کو عمر قید کی سزاسنا دی ہے۔ ملزمان کے وکیل نے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12FZg
تصویر: dapd

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج بشیراحمد کھوسو نے رینجرز کے اہلکار ملزم شاہد ظفر کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ملزم نے فائرنگ کر کے سرفراز شاہ کو قتل کیا تھا۔عدالت نے دیگر ملزمان رینجراہلکاروں محمد افضل،من ٹھار علی، محمد طارق، لیاقت علی، بہاؤالرحمان اور ایک سویلین افسر خان کو عمر قید اورایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ فیصلے سے قبل ملزم شاہد ظفرعدالت میں وظیفہ کرتا رہا۔ طرفین کے وکیل اورکیس کے مدعی بھی عدالت میں موجود تھے۔ مقتول کے بھائی سالک شاہ نے فیصلے پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے مجرم انجام تک پہنچے ہیں، ورنہ یہ خون رائیگاں چلا جاتا۔

پبلک پراسیکیوٹر محمدخان برڑو نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے انصاف کے تقاضے پورےہوگئے ہیں۔

Pakistan Gewalt Karachi
اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز خصوصا رینجرز کو مقامی میڈیا نے شدید تنقید کا نشانہ بنایاتصویر: AP

ملزمان کے وکیل نعمت رندھاوا نے انسداددہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کیس کی وجہ سے دباؤ کا نتیجہ قراردیتے ہوئے کہاکہ ملزمان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کا اطلاق نہیں ہوتا، فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور عمرقید پانے والے تمام ملزمان باعزت بری ہوجائیں گے۔

سرفراز شاہ کو آٹھ جون کی شام رینجرز اہلکاروں نے کلفٹن کے بینظیر بھٹو پارک میں فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

واقعے کی فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد 9 جون کو چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کی سماعت انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں کرنے اور فیصلہ ایک ماہ میں سنانے کے احکامات جاری کئے تھےجبکہ عدالت نے 9 اگست کو سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اوربیالیس روز بعد بارہ اگست کو کیس کا فیصلہ سنادیا گیا۔ مقدمے کی کارروائی میں بیس گواہوں نے بیانات قلمبند کرائے، جن میں تین عینی شاہدین بھی شامل تھے۔ جرم ثابت کرنے کے لیے چھیالیس شواہد عدالت کے روبرو پیش کیے گئے۔ ملزمان عدالتی فیصلے کے خلاف سات روز میں سندھ ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں۔

رپورٹ رفعت سعید

ادارت عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں