1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں

فرید اللہ خان، پشاور23 اپریل 2016

خیبر پختونخوا اسمبلی کے اقلیتی رکن اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اقلیتی اُمور سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات ان کے آبائی علاقے پیر بابا بونیر میں ادا کر دی گئیں۔

https://p.dw.com/p/1IbRV
Pakistan Sardar Sorun Singh
تصویر: PTI

اس موقع پر فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ سورن سنگھ کو گذشتہ روز نامعلوم افراد نے گولی مارکر قتل کر دیا تھا۔ بونیر پولیس کے مطابق سورن سنگھ کے قتل کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران تین افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور بہت جلد ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اقلیتی امور سردار سورن سنگھ پانچ سال قبل پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ رہے۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران وہ اقلیتیوں کیلئے مختص کردہ نشست پر خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جس کے بعد انہیں اقلیتی امور کے بارے میں وزیر اعلیٰ کا مشیر مقرر کیا گیا۔

سردار سورن سنگھ علاقے میں بلا امتیاز سماجی کام کرنے کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں مسلمانوں کے لیے جناز گاہوں اور مدارس کے ساتھ تعاون بھی کیا اور پشاور میں ستّر سال سے بند گوردوارہ سکھوں کی عبادت کے لیے کھولنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات میں بڑی تعداد میں سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی جن میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک بھی شامل تھے۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا، ’’پولیس نے تحقیقات میں کافی پیش رفت کی ہے اور اگلے ایک دو روز میں اس کے نتائج سامنے آ جائیں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تحقیقات جاری ہیں اور یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ٹارگٹ کلنگ یا کوئی اور واقعہ ہے۔

مقامی پولیس اور سیکورٹی کے دیگر اداروں کے اہلکاروں نے بونیر کے پہاڑی علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران تین افراد کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق احمد غنی کا کہنا تھا، ’’صوبائی حکومت نے اس واقعے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کے احکامات جاری کئے ہیں اور اس سلسلے پولیس کی جانب سے جاری تحقیقات میں کافی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘

سردار سورن سنگھ کے قتل سے خیبر پختونخوا اسمبلی میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے اراکین اسمبلی کی تعداد چار ہوگئی ہے جن میں دو صوبائی وزراء بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل صوبائی رکن اسمبلی فرید خان کو تین جون 2013ء کو گولی مارکر قتل کیا گیا تھا جب کہ اسی سال جون میں مردان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی عمران مومند کو ایک خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی سال کے اکتوبر میں صوبائی وزیر قانون اسرار اللہ گنڈاپور کو ان کے حجرے میں خود کش حملہ کر کے قتل کیا گیا۔

صوبائی حکومت اب تک اپنی ہی جماعت کے قتل ہونے والے کسی بھی رکن اسمبلی یا وزیر کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انہیں سزا دلانے کامیاب نہیں ہوسکی۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے حوالے سے جب تجزیہ نگار اور قبائلی امور کے ماہر شمس مومند نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون سے امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے لیکن سول حکومت سانحہ اے پی ایس کے بعد تشکیل دیے گئے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے دہشت گردی کی لہر قبائلی علاقوں سے نکل کر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی ہے۔‘‘

سردار سورن سنگھ کی ہلاکت کے بعد بونیر سمیت مالاکنڈ کے مختلف علاقوں کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سردار سورن کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی یا تنازعہ نہیں تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید