سانس اکھڑنے کا سبب ہائپر پلمونری ٹینشن بھی
12 دسمبر 2011جرمنی کے گرائس والڈ یونیورسٹی ہسپتال کے شعبہ امراضِ تنفس کے ماہر رالف ایورٹ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی صحت مند شخص میں دل کے دائیں اور بائیں حصوں کے درمیان خون کی وریدوں میں خون کا اوسط دباؤ 15 ملی میٹر مرکری کے قریب ہوتا ہے۔ 25 ملی میٹر یا اس سے زائد مرکری کے دباؤ کو خطرناک تصور کیا جاتا ہے اور اسے پلمونری ہائپر ٹینشن تصور کیا جاتا ہے۔
پلمونری ہائپر ٹینشن کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ اس میں ایک اہم چیز وریدوں میں رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیاں ہیں، جن کے نتیجے میں وہ سکڑ جاتی ہیں یا پھر ان میں خون کے چھوٹے چھوٹے لوتھڑے جمنے لگتے ہیں اور یوں پھیپھڑوں تک خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے اور بالآخر جسم میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔
جرمن ایسوسی ایشن آف پلمونولوجسٹس کے ترجمان میشائل بارکزوک نے کہا کہ پلمونری ہائپر ٹینشن کا اظہار واضح نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ’’اس کی اہم علامت جسمانی مشقت کے بغیر ہی سانس کا پھولنا ہے۔‘‘
اس کی دیگر علامات میں تھکاوٹ، دوران خون کے مسائل اور انتہائی کمزوری شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مرض کے بڑھنے کے بعد ظاہر ہونے والی علامات میں بے ہوشی کے دورے اور چھاتی پر دباؤ بڑھنا بھی شامل ہیں۔
اس مرض کے ظاہر نہ ہونے اور غیر واضح علامات کے باعث اس کی تشخیص کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
ہائیڈل برگ تھوریکس کلینک کے پلمونری ہائپر ٹینشن سینٹر کے سربراہ ایکے ہارڈ گرونِش نے کہا، ’’جن لوگوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں پہلی طبی علامات اور تشخیص کے درمیان کئی سالوں کا وقفہ ہوتا ہے۔‘‘ ان کے بقول اگر اس مرض کا علاج نہ کرایا جائے تو چند ہی سالوں میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
پلمونری ہائپر ٹینشن کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ موجود ہیں، جن میں الیکٹرو کارڈیو گرام، سینے کا ایکسرے اور ایکو کارڈیو گرام بھی شامل ہیں۔
تاہم اس بیماری کے علاج کا انحصار بیماری کی قسم پر ہے۔ جب پلمونری ہائپر ٹینشن کا سبب کوئی اور بیماری ہو تو پہلے اس بیماری کا علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ علاج کامیاب ثابت ہو تو بلڈ پریشر میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
ادویات کے علاوہ بعض دیگر طریقوں یعنی مصنوعی آکسیجن کی فراہمی اور سانس لینے اور ورزش کی تھیراپی کے ذریعے بھی اس کا علاج ممکن ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک