1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمبابوے: انتخابی دھاندلی کے بڑھتے ہوئے خدشات

1 اپریل 2008

افریقی ریاست زمبابوے کے عوام نے 29 مارچ ہفتے کے روز ایک نئی پارلیمان اور ایک نئے صدر کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے۔ ووٹوں کی گنتی کا عمل بڑی سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ابھی تک بھی بہت کم نتائج سامنے آ سکے ہیں۔ ایسے میں انتخابات میں دھاندلی کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے Johannes Beck کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/Di7l
حکمران جماعت زانُو پی ایف کے حامی ہرارے میں اپنے ایک امیدوار کی کامیابی پر جشن مناتے ہوئے
حکمران جماعت زانُو پی ایف کے حامی ہرارے میں اپنے ایک امیدوار کی کامیابی پر جشن مناتے ہوئےتصویر: AP

”یوں لگتا ہے کہ زمبابوے میں درپردہ انتخابی نتائج کو اس طرح تبدیل کیا جا رہا ہے کہ صدر رابرٹ موگابے کا اِس عہدے پر مزید ایک آئینی مدت کے لئے انتخاب یقینی ہو جائے۔ اب تک اگر اپوزیشن جماعت MDC یعنی تحریک برائے جمہوری تبدیلی اپنے مرتب کردہ نتائج کی روشنی میں سبقت کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری جانب یہی دعویٰ حکمران جماعت زانُو پی ایف کا بھی ہے۔

اگرچہ ان دعووں کی کسی غیر جانبدار ذریعے سے تصدیق ممکن نہیںلیکن یہ بات بھی تقریباً ناقابلِ تصور ہے کہ موگابے زمبابوے کے عوام کو ایک بار پھر اپنے ہی لئے ووٹ ڈالنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے۔کیونکہ موگابے ہی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے ملک کو اقتصادی لحاظ سے تباہ کر دیا ہے۔ ملک میں افراتفری، بے چینی اور بد انتظامی ہے اور افراطِ زر کی شرح ایک لاکھ فیصد سالانہ سے بھی اوپر جا چکی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومین رائٹس واچ جیسی حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں نے تو انتخابات سے پہلے ہی من مانی گرفتاریوں، ذرائع ابلاغ میں حالات کی یکطرفہ تصویر کشی اور حکومت کی جانب سے ووٹ خریدے جانے کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ ایسے میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابی مہم ممکن ہی نہیں تھی۔ بین الاقوامی مبصرین بھی چین ، روس اور ایران جیسے دوست ملکوں یا پھر ہمسایہ افریقی ملکوں سے بلائے گئے تھے۔

اور تو اور موزمبیق جیسے جمہوری ممالک کی جانب سے بھی کوئی تنقید نہیں کی گئی ہے۔ موزمبیق کے سابق صدر جوآکیم چِسانو نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویومیں کہا کہ اُنہیں دیگر قائدین کی نیت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ زمبابوے کی قیادت آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے گی۔

افریقی ممالک کے مابین یک جہتی کا یہی احساس غلط ہے۔ لیکن اگر افریقی ملکوں سے یہ بات کی جائے تو جواب میں وہ یورپی ممالک کو بھی بجا طور پر دہرے معیارات کا الزام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپ بھی جمہوریت کی بات وہیں کرتا ہے، جہاں اُس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔

سابق نوآبادیاتی طاقت برطانیہ کو زمبابوے میں انسانی حقوق کا موضوع اُس وقت نظر آیا، جب وہاں انگریز زمینداروں سے زمینیں واپس لی جانے لگیں۔ جبکہ اَسی کے عشرے کے اوائل میں موگابے نے ہزارہا اپوزیشن اراکین کو قتل کروا دیا تو مغربی دُنیا کی حکومتوں کی جانب سے بہت کم احتجاج دیکھنے میں آیا۔

زمبابوے کے حالات پر احتجاج درست ہے لیکن ساتھ ساتھ لیبیا، گیمبیا یا پھر ایتھوپیا جیسے اُن دیگر افریقی ملکوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، جہاں جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی کی صورتِ حال بہت ہی خراب جا رہی ہے۔“