1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’زبان دنیا کی کلید ہے‘: مہاجرین کے لیے اس کی اہمیت

عاصم سلیم
1 مئی 2017

مشرق وسطیٰ سے فرار ہونے والے سب ہی پناہ گزين يورپ نہيں آتے، اُن ميں سے کئی دنيا کے ديگر خطوں و ممالک ميں قسمت آزماتے ہيں۔ قريب نو ہزار تارکين وطن برازيل بھی پہنچے ہیں اور وہاں اُن کے لیے منفرد انداز مواقع پائے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2cB25
Deutschland Syrische Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul

شامی مہاجر حادی بخور نے سياسی پناہ کی غرض سے سن 2014 ميں اپنا آبائی شہر حلب چھوڑا۔ بائيس سالہ يہ نوجوان اِس خوف ميں مبتلا تھا کہ کہيں اُسے صدر بشار الاسد کی فوج ميں جبراً بھرتی نہ کر ليا جائے۔ حادی اُس وقت يونيورسٹی ميں معاشيات پڑھ رہا تھا۔ اُسے نہ صرف اپنی تعليم بلکہ اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور بہت کچھ پيچھے چھوڑنا پڑا۔ حلب سے روانگی کے وقت حادی کے  پاس صرف اپنی زبان کا سرمایہ  تھا۔ اب تين برس بعد یعنی  سن 2017 ميں وہ برازيل کے شہر ريو ڈی جينيرو کے زبان سکھانے والے ايک اسکول ميں استاد کے حيثيت سے ملازمت کر رہا ہے۔

برازيل ميں ’کلچرل ہگ‘ نامی ايک منصوبے کے تحت ہجرت کے پس منظر والے افراد کو زبان سکھانے کی ملازمتوں پر رکھا جا رہا ہے۔ ريو ڈی جينيرو کے جس اسکول ميں حادی عربی زبان سکھاتا ہے، وہيں تقريباً دو درجن ديگر مہاجرين بھی ملازمت کرتے ہيں اور اُن کا کام بھی اپنی اپنی زبان کی تربيت فراہم کرنا ہے۔ اِس منصوبے کے تحت برازيل کے ديگر کئی شہروں ميں بھی موجودہ يا سابقہ مہاجرين ملازمتيں کر رہے ہيں۔ ’کلچرل ہگ‘ کا مقصد يہ ہے کہ مقامی باشندے، عربی زبان پر مہارت رکھنے والے اِن تارکین وطن سے کچھ سيکھ سکيں اور ساتھ ہی ملک ميں موجود لگ بھگ نو ہزار مہاجرين کے انضمام اور اُن ميں سے چند کی نوکريوں کا بندوبست ہو سکے۔

حادی نے اِس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’يہ ايک بہترين منصوبہ ہے کيونکہ مدد مانگے بغير ہی ہماری مدد ہو جاتی ہے۔ مکان کے کرائے جيسے اخراجات پورے کرنے کے ليے ہميں رقم مل جاتی ہے اور اِسی دوران ہم نئے لوگوں سے ملتے ہيں اور نئے دوست بنا ليتے ہيں۔‘‘ حادی کا ساتھی شانٹريل بھی پناہ کی تلاش ميں افريقی رياست کانگو سے فرار ہوا تھا۔ وہ اِسی اسکول ميں فرانسيسی زبان کی تعليم فراہم کرتا ہے۔ اُس کے بقول کانگو سے فرار ہونے کے ليے اسے کافی رقم کا بندوبست کرنا پڑا تھا۔ اب اس منصوبے کی مدد سے وہ ادھار کے طور پر لی ہوئی رقم واپس کر رہا ہے۔

’کلچرل ہگ‘ کی شريک بانی کارولينا ڈے اوليويا کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہاں آنے کے فوراً بعد يہ مہاجرين زبان سکھانے يا استاد کے طور پر کام کرنے کا تجربہ نہيں رکھتے تاہم وہ ثقافت کی دولت سے مالا مال ہوتے ہيں۔ ’’چونکہ شروع ميں انہيں مقامی زبان نہيں آتی، انضمام کے ليے انہيں بہت کچھ درکار ہوتا ہے جس سے وہ اس نئے ملک و معاشرے ميں خود کو خوش آمديد محسوس کر سکيں۔ بصورت ديگر اگر وہ مہاجر کيمپوں ميں وقت گزاريں، تو وہ کچھ نہيں سيکھ پاتے۔‘‘ اوليويا کا کہنا ہے کہ ان کے منصوبے کی مدد سے  مہاجرين برادریوں کو شام، عراق اور کانگو جيسے ملکوں کے محلوں ميں تبديل کر ديتے ہيں، جو ثقافتی تبادلے کے نقطہ نظر سے کافی خوش آئند بات ہے۔

مہاجرین کے لیے مساجد میں جرمن زبان کی مفت کلاسیں