1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ریاست مخالف سرگرمیاں‘، پنجاب میں کریک ڈاؤن

21 جنوری 2017

پاکستان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پنجاب میں فعال خواتین اور انسانی حقوق کے متعدد اداروں پر ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2WAmD
Pakistan schließt NGO Save the Children in Islamabad
سن دو ہزار پندرہ میں پاکستان میں بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دی چلدڑن‘ کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں یہ حکومتی فیصلہ واپس لے لیا گیاتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستان میں فعال انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ پنجاب میں حکومت نے حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کو بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ان تنظیموں اور گروپوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں تاہم واضح نہیں کیا گیا کہ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں، جن سے ریاست کو خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان: 23 غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ ہو گی
غیر سرکاری اداروں کی سخت نگرانی ضروری، پاکستانی وزارت داخلہ
’لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں‘، چوہدری نثار

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ انسانی حقوق کے سرکردہ اہلکار آئی اے رحمان نے روئٹرز سے گفتگو میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’وہ (حکام) لوگوں کو ہراساں کر کے خاموش کرانا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بالخصوص جنوبی پنجاب میں درجن بھر غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ رحمان نے بتایا کہ یہ ادارے خواتین اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔

آئی اے رحمان نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے ضلعی پولیس افسران کو احکامات جاری کیے ہیں کہ فلاں فلاں تنظیمیں ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں سرگرم ہیں، اس لیے ان پر پابندی عائد کر دی جائے۔ روئٹرز نے بتایا ہے کہ اس پیشرفت پر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

ساؤتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان نامی غیر سرکاری ادارے کے ڈائریکٹر محمد تحسین نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ بہاولپور میں قائم ان کے ایک دفتر کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ دفتر ’ریاست مخالف ایجنڈے‘ کو فروغ دے رہا ہے۔ محمد تحسین نے کہا ہے کہ پولیس ان الزامات کی تصدیق کے لیے ثبوت فراہم نہیں کر سکی ہے۔

پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں لبرل نظریات کے حامل گروپ انتہائی کم تعداد میں ہیں، جو پریشان رہتے ہیں کہ اگر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا جائے گا۔ حال ہی میں پاکستان میں پانچ مختلف لبرل بلاگرز کے لاپتہ ہونے کے بعد اس خوف میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ تاہم حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ ان افراد کے لاپتہ کرنے میں اس کا کوئی ہاتھ ہے۔

پاکستانی حکومت نے حالیہ برسوں کے دوران ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر اپنی گرفت سخت کر دی ہے۔ ان میں سے کچھ تنظیموں پر یہ الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں کہ وہ امدادی کاموں کی آڑ میں ’جاسوسی‘ میں ملوث ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں پاکستان میں بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دی چلدڑن‘ کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں یہ حکومتی فیصلہ واپس لے لیا گیا۔