1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رياض ميں شامی اپوزيشن کا اجلاس جاری

عاصم سليم27 جنوری 2016

سعودی عرب کی حمايت يافتہ شامی اپوزيشن کے ارکان آج بروز بدھ بھی رياض ميں ملاقات جاری رکھے ہوئے ہيں، جس ميں اس بارے ميں بات چيت جاری ہے کہ آيا اپوزيشن کو اقوام متحدہ کے زير انتظام امن مذاکرات ميں شرکت کرنی چاہيے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/1Hkk0
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

شامی اپوزيشن کو متحد کرنے کی غرض سے گزشتہ ماہ ہی رياض ميں قائم ہونے والی اعلیٰ مذاکراتی کميٹی (HNC) کے ارکان نے چھبيس اور ستائيس جنوری کے روز سعودی دارالحکومت ميں ملاقات کی۔ بات چيت ميں طے کيا جانا ہے کہ آيا اقوام متحدہ کی دعوت پر جمعے سے شروع ہونے والے امن مذاکرات ميں شرکت کی جائے یا نہیں۔ تاحال اس بات چيت کے نتيجے ميں کسی واضح پيش رفت يا حتمی فيصلے کی اطلاع نہيں ہے۔

کميٹی کے ترجمان نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ بات چيت جاری ہے اور پورا دن بھی لگ سکتا ہے۔ انہوں نے مزيد کوئی تفصيلات نہيں بتائيں۔ اعلیٰ مذاکراتی کميٹی کا اصرار ہے کہ جنيوا ميں ہونے والے مذاکرات ميں وہ شامی اپوزيشن کی واحد نمائندہ تنظيم ہونی چاہيے اور اس سلسلے ميں اقوام متحدہ سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ قبل ازيں عالمی تنظيم ديگر شامی اپوزيشن تنظيموں کو بھی مذاکرات ميں شرکت کی دعوت دے چکی ہے۔

امن مذاکرات پہلے ہی ملتوی کيے جا چکے ہيں، انہيں در اصل اس ہفتے پير کے دن سے شروع ہونا تھا۔ تاہم شامی صدر بشار الاسد کے خلاف کھڑی ہونے والی اپوزيشن کی نمائندگی کون کرے گا کہ موضوع پر کسی حتمی فيصلے کے نہ ہونے کے سبب انہيں جمعے تک کے ليے ملتوی کر ديا گيا تھا۔ امريکی وزير خارجہ جان کيری اور کئی مغربی سفارت کار اپوزيشن ارکان پر کافی دباؤ ڈال رہے ہيں کہ وہ امن عمل ميں شرکت کريں۔

شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے
شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہےتصویر: picture alliance/AA/I. Hariri

شامی اپوزيشن کی نمائندگی کے حوالے سے جاری تنازعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ شام ميں نہ صرف اپوزيشن دھڑے تفريق کا شکار ہيں بلکہ متعدد سفارتی قوتوں کے مفادات بھی داؤ پر لگے ہوئے ہيں۔ صدر اسد کا اتحادی ملک روس وسيع تر مذاکراتی عمل چاہتا ہے، جس ميں زيادہ اپوزيشن قوتوں کی نمائندگی ہو۔ روسی وزير خارجہ سيرگئی لاوروف نے منگل کے روز کہا تھا کہ مذاکرات اس وقت تک نتيجہ خيز ثابت نہيں ہو سکتے جب تک کہ شامی کُرد ان ميں شامل نہ ہوں۔

اگرچہ رياض ميں قائم ہونے والی کميٹی ميں کرد نمائندے شامل ہيں تاہم شامی کردوں کی سب سے اہم تنظيم ڈيموکريٹک يونين پارٹی کو منگل تک مذاکرات ميں شرکت کی دعوت موصول نہيں ہوئی تھی۔ ادھر اپوزيشن کی حمايت کرنے والا اہم ملک ترکی واضح کر چکا ہے کہ اگر PYD کو دعوت دی گئی، تو انقرہ حکام مذاکرات کا حصہ نہيں بنيں گے۔ انقرہ حکومت PYD کو کردستان ورکرز پارٹی کی ايک شاخ کے طور پر ديکھتی ہے، جس نے جنوبی ترکی ميں مسلح تحريک شروع کر رکھی ہے اور جو کالعدم تنظيم ہے۔