1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دینی مدارس کی رجسٹریشن، اتفاق بھی اور تحفظات بھی

فریداللہ خان، پشاور
3 نومبر 2017

خیبر پختونخوا میں دینی مدرسوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے اگرچہ مدارس کے منتظمین اور صوبائی حکومت کے مابین اصولی اتفاق ہو گیا ہے تاہم اس تناظر میں مدراس کی جانب سے کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2myrl
Afghanistan Polizei befreit Kinder aus den Händen der Taliban
تصویر: Getty Images/AFP/Z. Hashimi

وفاقی حکومت کی جانب سے دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور اسے محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹر‌ کرانے پر خیبر پختونخوا کے دینی مداراس کے بعض مکتبہ فکر کے منتظمین کے تحفظات سامنے آئے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سترہ ہزار نو سو باون رجس‍ٹرڈ دینی مداراس میں دو اعشاریہ دو ملین سے زیادہ طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں، جہاں اساتذہ سمیت ایک لاکھ سولہ ہزار افراد سے زیادہ عملہ کام کر رہا ہے۔

پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد میں اضافہ

دینی مدارس کو کنٹرول کرنے کا حکومتی منصوبہ کہاں تک پہنچا؟

’مدارس کی رجسٹریشن‘ ابھی تک ایک خواب ہی

ملازمتوں کی امید، پاکستانی چینی زبان سیکھنے لگے

حکومت کی جانب سے دینی مدارس کو فراہم کردہ گیارہ صفحات پر مشتمل ڈیٹا فارمز میں مدارس کے منتظمین کو تمام کوائف درج کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان مدارس کے منتظمین کو فرقہ واریت اور دہشت گردی میں ملوث نہ ہونے کی ضمانت دینا ہو گی اور وسائل کے تمام ذرائع بھی بتانا ہوں گے۔ 

اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کی خاطر جب ڈوئچے ویلے نے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے رکن مفتی کفایت اللہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ’’رجسٹریشن سے قبل حکام نے ہمیں کہا کہ ایک ڈیٹا فارم وہ بنائیں گے اور ایک ہم بنائیں گے لیکن اس عمل میں دونوں ایک دوسرے سے متفق نہ ہو سکے، جس کے بعد دونوں ڈیٹا فارمز کو سامنے رکھتے ہوئے متفقہ طور پر ایک ڈیٹا فارم تیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔‘‘

کفایت اللہ کا مزید کہنا تھا کہ دینی مدارس کی ایک پوزیشن دینی ہے، دوسرا مذہبی اور تیسری سوشل ہے۔ اگر حکومت انہیں محکمہ تعلیم کو دیتا ہے تو وہ ان مدراس کے باقی پہلوؤں کے ساتھ  کیا کریں گے؟ ان کا کہنا مزید کہنا تھا، ’’‍حکومت اسے وزارت داخلہ کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے، جو خالصتا امن و امان کی ذمہ دار ہے لیکن ہم مدارس کی آزادی اور خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ہم حکومتی اداروں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا میں دینی مدارس سن اٹھارہ سو ساٹھ کے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کیے جاتے ہیں۔

ادھر وفاق المدارس عربیہ خیبر پختونخوا کے ناظم مولانا حسین احمد کا موقف ہے، ’’حکومت کی جانب سے مدارس کو ارسال کردہ رجسٹریشن فارمز واضح نہیں ہیں۔ یہ فارمز بنیادی طور پر محکمہ تعلیم کو ارسال کرنے چاہییں لیکن یہ ذمہ داری کسی اور وزارت کو دے دی گئی ہے۔ حکومتی اقدامات سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ اس عمل میں سنجیدہ ہی نہیں کیونکہ اس سلسلے میں نہ وفاقی اور نہ ہی ‍صوبائی حکومت کی جانب قانون سازی کی گئی ہے۔‘‘

وفاقی حکومت کی جانب مدارس کو جاری کرنے والے ڈیٹا فارمز پر ابھی صوبائی حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں ایا تاہم محکمہ تعلیم خیبر پختون‍خوا کے مطابق مدارس کو ایک ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن مکمل کرنے ہوگی ۔

محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق تعلیمی بورڈ سے منسلک کرانے میں انہیں کوئی مشکل نہیں بلکہ انکے لئے الگ شعبہ بھی بنایا جاسکتا ہے دوسری جانب پشاور میں حکومتی ادارو‍ں کے اعلی حکام کے ساتھ اجلاس میں کئی مدارس کے منتظمین مدارس کے تعلیمی بورڈ ز کے ساتھ رجس‍ٹریشن پر راضی ہوئے ہیں ان کا موقف ہے کہ اس سے قبل دینی مدارس محکمہ صنعت کے ساتھ رجسٹرڈ تھے جسکا کوئی جواز نہیں بنتا۔