1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی

شکور رحیم، اسلام آباد26 اپریل 2009

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فرنٹیئر کور نے صوبائی حکومت اور عوام کی درخواست پر دیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاہے ۔

https://p.dw.com/p/Hehc
پاکستان کا شمال مغربی سرحدی علاقہ دنیا بھر کی توّجہ کا مرکز بن گیا ہےتصویر: GFDL / Pahari Sahib

اتوار کے روز آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لوئر دیر کے علاقے لعل قلعہ، اسلام پورہ اور کالا ڈگ میں شدید فائرنگ کے تبادلے میں بڑی تعداد میں عسکریت پسند مارے گئے ہیں جبکہ لڑائی کے دوران ایک سیکورٹی اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ دریں اثناء مشیر داخلہ رحمان ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے لوئر دیر سے عسکریت پسندوں کا مکمل صفایا کر کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

Chaos und Gewalt in Pakistan Besetzte Polizeistation nahe der afghanischen Grenze Musharraf verhängt Ausnahmezustand in Pakistan
حکومت کے مطابق طالبان کے خلای فوجی کارروائی سوات امن معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہےتصویر: AP

’لوئر دیر مکمل طور پر زیر کنٹرول ہے بہت سے شدت پسند مارے گئے ہیں میری عسکریت پسندوں اور طالبان سے اپیل ہے کہ وہ ہتھیار پھینک دیں کیونکہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے عسکریت پسندی کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے اور میں ان کو یہ وارننگ دوں گا کہ وہ جو پمفلٹس بانٹ رہے ہیں اس کو بند کریں اور ہم پبلشر کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ پمفلٹس کہاں سے چھپوائے جا رہے ہیں اور چھاپنے والے کے خلاف بھی ہم ایکشن لیں گے۔‘


رحمان ملک کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمعرات کے روز لوئر دیر میں کھلونا بم کے دھماکے میں 13بچوں کی ہلاکت کے بعد عسکریت پسندوں کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے ۔ اور بقول ان کے اب عسکریت پسندوں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ رحمن ملک نے اس تاثر کو بھی غلط قراردیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی امریکہ کی ایماء پر شروع کی گئی ہے تاہم دوسری طرف تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بیرونی دبائو پر عسکریت پسندوں کے خلاف جلد بازی میں کارروائی کے بجائے ایسی ٹھوس حکمت عملی کے تحت آپریشن کرے کہ ماضی کے برعکس اب یہ عناصر دوبارہ ان علاقوں میں سر نہ اٹھا سکیں۔ اس بارے میں دفاعی تجزیہ نگار اور سابق وزیر داخلہ جنرل حامد نواز کا کہنا ہے:

’’ پاکستان اس وقت امریکی دبائو اور طالبان کے دبائو کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے اور ہمیں اس وقت بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہے طالبان کے خلاف اگر ہم کارروائی کرتے ہیں تو اس کے لئے ایک پری کنڈیشن ہے کہ مقامی آبادی فوج کے ساتھ ہو اگر ہم طالبان کے ساتھ قبل از وقت طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو یہ ساری سکیم فیل ہو جائے گی۔‘

ادھر صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ دیر میں جاری آپریشن کا سوات امن معاہدے پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن حکومتی عملداری چیلنج کرنے والوں کے خلاف اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ہے۔