1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی کی تاریخی و قدیمی یادگاروں کے قابضین

عابد حسین4 اپریل 2016

بھارتی دارالحکومت میں واقع بے شمار تاریخی عمارتوں میں بےگھر افراد گُھس کر قابض ہو چکے ہیں۔ اِن قابضین کی وجہ سے ان قدیمی و تاریخی عمارتوں کا نشان مٹنا شروع ہو گیا ہے اور کئی غیر سرکاری ادارے سراپا احتجاج ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IP33
دہلی کا نو تعمیر شدہ تاریخی مقام ’چونسٹھ کھمبا‘تصویر: courtesy Germany Embassy, New Delhi

بھارت میں قدیمی و تاریخی عمارتوں کا نگران ادارہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) ہے۔ اِس ادارے نے دہلی میں 176 تاریخی و قدیمی عمارتوں کو اپنی زیر نگرانی رکھا ہے۔ اِس ادارے کے نائب سربراہ آر ایس فونیا کا کہنا ہے کہ تاریخی عمارتوں کی حفاظت اور تعمیر نو ایک مکمل اور انتہائی توجہ کا معاملہ ہے۔ فورنیا نے دہلی کی دوسری قدیمی عمارتوں کو اپنی نگرانی میں کرنے کو ایک مشکل مرحلہ قرار دیا ہے اور فنڈ کی کمیابی کا رونا بھی رویا۔ بھارتی دارالحکومت کی جدید اقتصادی ترقی کے دوران کئی نئی عمارتوں کی تعمیر کے دوران قدیمی یادگاروں کو پوری طرح بلڈوز کر دیا گیا ہے اور اُن پر آواز بلند کرنے والوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

دہلی کے انتہائی اندرون میں واقع ایک علاقے کا نام نظام الدین ہے اور یہ وہاں پر اسی نام کے مشہور صوفی بزرگ کے مزار کی وجہ ہے۔ اِس علاقے میں سڑکوں پر ہارمونیم کے ساتھ صوفی کلام گانے والوں کی بھرمار ہے۔ ان کے علاوہ سستے سامان اور اشیائے خورد و نوش کی ریڑھیوں کے ساتھ ساتھ خوانچہ فروش بھی قطار اندر قطار ہیں۔ اسی علاقے میں سولہویں صدی میں تعمیر کیے گئےعتکہ خان کے مزار میں بے گھر افراد قابض ہو چکے ہیں۔ اِس مزار پر قابض افراد کا کہنا ہے کہ وہ نظام الدین اولیا کی درگاہ کے خادموں میں سے ہیں اور درگاہ کے قریب رہنا اُن کی ڈیوٹی کا حصہ ہے۔ ایک خصوصی حکم کے تحت عتکہ خان کے مقبرے پر اضافی تعمیر کو گرا دیا گیا ہے لیکن قابضین کہیں اور جانے کو تیار نہیں اور وہ گرائے گئے حصے کے ملبے پر ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

Indien Neu-Delhi Wetter Hitzewelle
ایک قدیمی عمارت میں قابض خاندان کا ایک شخص نظام الدین کے مزار میں چھلانگ لگاتے ہوئےتصویر: Reuters/A. Abidi

دہلی ہائی کورٹ نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے ڈی ڈی اے (DDA) کو گزشتہ ماہ حکم دیا تھا کہ وہ آثار قدیمہ کے دو سو ایکڑ رقبے کے گردا گرد ایک دیوار کھڑی کرے تا کہ اِس کے اندر موجود قدیمی عمارتوں کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے کیونکہ دیہاتوں اور دوسرے قصبوں سے دہلی پہچنے والے بے گھر افراد اِن تاریخی و قدیمی عمارتوں میں رہائش اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اِس دو سو ایکڑ رقبے کو آرکیالوجیکل پارک کا علاقہ قرار دیا جا چکا ہے اور اِس میں ایک سو سے زائد تاریخی عمارتیں ہیں جو بھارتی دارالحکومت کے قدیمی ورثے کا نشان ہیں لیکن انتہائی زبوں حالی کی شکار ہو چکی ہیں۔

بھارت میں آغا خان ٹرسٹ کے کلچرل ونگ کے سربراہ رتیش نندا ہیں اور وہ خود بھی ماحول دوست اور قدیمی و تاریخی عمارتوں کے تحفظ کا پرچار کرنے والے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ بھارت میں قدیمی تمدن کو بیش قیمت سرمایہ خیال کرنے کے بجائے ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ نندا ہی کوششوں اور نگرانی میں دہلی میں واقع مغل بادشاہ ہمایوں کے مقبرے کی ازسرنو تزئین کا کام مکمل کیا گیا تھا۔ ہمایوں کا مقبرہ عالمی تمدنی ورثے میں شمار کیا جاتا ہے۔ نندا کا کہنا ہے کہ قدیمی تمدنی سرمائے کو بچانے کا عمل ایک مسلسل کوشش ہے لیکن حکام، مقامی لوگوں اور دوسرے اہم افراد کو اِن کی نگہداشت کے لیے قائل کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔