1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف ایران میں کانفرنس، تضاد کی علامت: امریکہ

28 جون 2011

امریکی محکمہء خارجہ نے ایران میں گزشتہ ہفتہ ہونے والے دہشت گردی کے خلاف ایک بین الاقوامی کانفرنس کو تہران کے رویے میں تضاد کی علامت کا نام دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11kuB
تصویر: AP/ DW-Montage

واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی محکمہء خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نیولینڈ نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات کو مبینہ طور پر محض قول و فعل کا تضاد سمجھتا ہے کہ ایران نے اپنے ہاں انسداد دہشت گردی کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا حالانکہ ’ایران ہی وہ ملک ہے جو ریاستی سطح پر دہشت گردی کی سب سے زیادہ سرپرستی کرتا ہے۔‘

Schahab-3-Raketen bei iranischem Manöver abgefeuert
ایران کا تیار کردہ شہاب سوئم طرز کا میزائل جس کے ذریعے ایرانی حکام کے مطابق افغانستان میں امریکی اڈوں اور اسرائیل کے کسی بھی حصےکو نشانہ بنایا جا سکتا ہےتصویر: AP

تہران سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس کانفرنس میں، جو 25 جون کو منعقد ہوئی اور جس میں ایران، پاکستان اور افغانستان نے بھی حصہ لیا، 60 ملکوں کے مندوبین شامل ہوئے۔ اس کانفرنس کے اختتام پر مندوبین نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آپس میں مل جل کر کوششیں کریں گے۔

اس بین الاقوامی اجتماع کے بارے میں امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان نیولینڈ نے کہا ہے، ’’ایران کی طرف سے پورے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں دہشت گردوں اور عسکریت پسند گروپوں کے لیے مالی اور مادی امداد ان کوششوں کا منہ چڑاتی ہے، جو ان خطوں میں امن کی ترویج کے لیے کی جارہی ہیں۔‘‘

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اس اہلکار کے بقول یہ ایرانی رویہ نہ صرف ان خطوں میں ’اقتصادی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ وہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے فروغ کی کوششوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔‘

اس امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ایران علاقے میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر زیادہ تعمیری انداز میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ابھی تک ایسی کاوشوں میں مصروف ہے، جن کی ’نہ تو کوئی بنیاد ہے اور جو موجودہ حالات کو بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت نہیں ہو سکتیں۔‘

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں