1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنيا کے سب سے بڑے مہاجر کيمپ کی بندش : ضرورت يا سياست؟

عاصم سليم22 مئی 2016

سياسی مبصرين اور غير سرکاری تنظيموں کا کہنا ہے کہ کينيا کی جانب سے دنيا کے سب سے بڑے مہاجر کيمپ کی بندش کا اعلان وہاں ہونے والے صدارتی اليکشن سے قبل ايک ’سیاسی چال‘ اور اضافی مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IsUs
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kurokawa

کينيا کی حکومت کی جانب سے اسی ماہ چھ مئی کو اعلان کيا گيا کہ داداب کيمپ ميں اب نئے آنے والے مہاجرين کو پناہ نہيں دی جا سکتی اور جلد ہی يہ کيمپ بند کر ديا جائے گا۔ اس اقدام کی وجہ ملکی قومی سلامتی کو خطرہ بتائی گئی ہے۔ اس کے برعکس ماہرين کا کہنا ہے کہ کيمپ کی ممکنہ بندش کے اعلان کے پيچھے اصل مقاصد کچھ اور ہو سکتے ہيں۔

داداب کيمپ افريقی ممالک کينيا اور صوماليہ کی درميانی سرحد کے قريب قائم ہے۔ اس کيمپ ميں تقريباً ساڑھے تين لاکھ مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں جن ميں بھاری اکثريت صوماليہ ميں مسلح تنازعات کے علاقوں سے فرار ہونے والوں کی ہے۔

برطانيہ ميں يونيورسٹی آف کينٹ کے ’اسکول آف پاليٹکس اينڈ انٹرنيشنل ریليشنز‘ سے وابستہ مہاجرين سے متعلق امور کی ايک ماہر اين ہيمراسٹيڈ کا کہنا ہے کہ وہ نہيں سمجھتيں کہ داداب کيمپ کو حقيقتاً بند کيا جائے گا۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ممکنہ پيش رفت کے نتيجے ميں ايک بہت بڑا انسانی الميہ پيدا ہو سکتا ہے اور صوماليہ کے مہاجرين کو واپس بھيجنا بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی ہو گی۔ کينيا کی جانب سے اس سے قبل بھی دو مرتبہ داداب کيمپ کی بندش کا کہا جا چکا ہے تاہم اقوام متحدہ ميں برطانوی سفير ميتھيو رائيکروفٹ نے اس ہفتے جمعے کے روز کہا ہے کہ کينيا کے صدر اوہورو کينياٹا نے انہيں يقين دہانی کرائی ہے کے کہ ان کا ملک اپنی بين الاقوامی ذمہ دارياں پوری کرے گا۔

داداب کيمپ کی بندش کا اعلان کرتے وقت کينيا کے وزير داخلہ جوزف اولے نکيسری نے ايک مرتبہ پھر اسی موقف کو دہرايا کہ نيروبی کے ويسٹ گيٹ شاپنگ مال پر 2013ء ميں ہونے والے حملے اور سن 2015 ميں گاريسا يونيورسٹی پر ہوئے حملے، دونوں ہی کی منصوبہ بندی داداب کيمپ ميں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے کی تھی۔ يہ امر اہم ہے کہ تاحال اس حوالے سے کوئی شواہد پيش نہيں کيے گئے ہيں۔ اس کے علاوہ داداب کيمپ کو چلانے کی بھاری قيمت کو بھی بندش کے اعلان کی وجہ بتايا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی جانب سے ايک طرف لاکھوں کو مہاجرين کی ميزبانی کرنے پر نيروبی حکومت کے کردار کو سراہا گيا تاہم دوسری جانب داداب کيمپ کی بندش کے اعلان پر گہری تشويش کا اظہار بھی کيا گيا ہے۔

اس کيمپ ميں تقريباً ساڑھے تين لاکھ مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں جن ميں بھاری اکثريت صوماليہ ميں مسلح تنازعات کے علاقوں سے فرار ہونے والوں کی ہے
اس کيمپ ميں تقريباً ساڑھے تين لاکھ مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں جن ميں بھاری اکثريت صوماليہ ميں مسلح تنازعات کے علاقوں سے فرار ہونے والوں کی ہےتصویر: picture alliance/dpa/UNHCR/B. Bannon

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے ايک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ نيروبی کی جانب سے اس اعلان کا وقت کافی اہم ہے۔ اس سفارت کار کے بقول يہ منصوبہ انسانی بنيادوں پر امداد کے حوالے سے ترک شہر استنبول ميں 23 مئی سے شروع ہونے والی سمٹ سے قبل کيا گيا ہے۔ علاوہ ازيں عنقريب يو اين ايچ سی آر کے سربراہ کينيا کا دورہ کرنے والے ہيں اور ستمبر ميں نيروبی، موغاديشو اور يو اين ايچ سی آر کے درميان صومالی پناہ گزينوں کے حوالے سے سن 2013 میں طے کی گئی ايک ڈيل کی مدت بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ داداب کيمپ ميں تين پناہ گزينوں کی کہانی پر مبنی کتاب ’سٹی آف تھورنز‘ يعنی کانٹوں کا شہر کے مصنف بين لارنس کے بقول معاملہ اقتصادی ہہ یعنی کينيا کو بنیادی طور پر امداد کے تناظر میں زيادہ بین الاقوامی مالی امداد درکار ہے۔

انٹرنيشنل کرائسس گروپ نامی غير سرکاری تنظيم ميں افريقی امور کے ايک ماہر سيڈرک بارنز کا کہنا ہے کہ کينيا حکومت کے اس اعلان کے پيچھے ايک عجيب سياسی مقصد بے کارفرما ہے۔ ان کے بقول سن 2017 کے صدارتی انتخابات سے قبل حکومت يہ ثابت کرنا چاہتی ہے اسے ملکی سلامتی پر پورا کنٹرول ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ داخلی سلامتی کو صدر کينياٹا کی دور حکومت ميں کمزور ترين مانا جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید