1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دلائی لاما کے نمائندے مذاکرات کے لئے دوبارہ چین میں

امتیاز احمد30 جون 2008

تبت میں مارچ میں ہونے والے خونریز ہنگاموں کے بعد دلائی لاما اور بیجنگ حکومت کے مابین مئی میں شروع ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کے دوسرے دور کے لئے دلائی لاما کے دونمائندوں پر مشتمل ایک وفد پیر کی رات بیجنگ پہنچ گیا۔

https://p.dw.com/p/ETcC
اس سال مئی میں دلائی لاما کے دورہ جرمنی کے دوران برلن میں لی گئی ایک تصویرتصویر: AP

اس وفدکی چینی حکومتی نمائندوں کے ساتھ دو روزہ بات چیت منگل کے روز شہر شین زین میں شروع ہو گی جو ہے تو چینی ریاست کے مرکزی علاقے ہی کا ایک شہر مگر ہانگ کانگ کے ساتھ داخلی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے۔

تبت کی جلاوطن حکومت کے بیانات کے مطابق دلائی لاما نے اپنے ان دونوں نمائندوںGyaltsen Gyari اور Kelsang Gyaltsen کو یہ ہدایات دے کر چین بھیجا ہے کہ وہ چینی حکومت کے ساتھ ان مذاکرات کی کامیابی کے لئے بھر پور کوششیں کریں تاکہ تبت کے تنازعے میں پیش رفت بھی ہو اور تبتی باشندوں کی روز مرہ زندگی میں مشکلات کا ازالہ بھی کیا جاسکے۔

Dalai Lama mit Angela Merkel
گذشتہ برس ستمبر میں دلائی لاما کے دورہ جرمنی کے دوران لی گئی تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا کی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ایک تصویرتصویر: AP

اس حوالے سے دلائی لاما کے سیکریٹری Chhoekyapa نے یہ بھی کہا کہ تبتی اور چینی نمائندوں کی اپنی نوعیت کی اس دوسری بات چیت کے لئے ماحول بہت صبر آزما اور مشکل ہے تاہم وہ امید کرتے ہیں کہ بدھ کے روز اس مکالمت کے اختتام تک اس بارے میں کوئی نہ کوئی پیش رفت دیکھنے میں آئے گی۔

چین میں بارہ مئی کے تباہ کن زلزلے سےچند روز قبل شروع ہونے والی اس بات چیت میں، جس پر بیجنگ حکومت بہت زیادہ بین الاقوامی دباؤ کے بعد راضی ہوئی تھی، مکالمت کا یہ دوسرا راؤنڈ گیارہ جون سے شروع ہونا تھا مگر زلزلے کے بعد امدادی کاموں کی وجہ سے اس میں دانستہ تاخیر کردی گئی تھی۔

دریں اثناء دلائی لاما اور چینی حکومت کے مابین سیاسی اختلافات ابھی بھی صرف ان دونوں کے مابین اختلافات نہیں ہیں بلکہ ان میں بین الاقوامی برادری کی دلچسپی بھی اب تک قائم ہے جو اس بارے میں مسلسل بیجنگ پر دباؤ ڈالتی رہتی ہے۔

China Tibet Demonstration in Lhasa Polizei
مارچ میں ہونے والے خونریز مظاہروں کے دوران تبت کے دارالحکومت لہاسا میں متعین چینی پولیس اہلکارتصویر: AP

اس کا ایک ثبوت امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائیس بھی ہیں جنہوں نے چین کے زلزلے سے تباہ شدہ علاقوں کے اپنے ایک حالیہ دورے کےدوران یہ ذکر کرنا بھی اہم سمجھا کہ چین میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر ہونا چاہیے اور چین اور تبت کی جلا وطن حکومت کے مابین مذاکرات خوش آئند تو ہیں مگر اس بات چیت کا مثبت نتیجہ بھی نکلنا چاہیے۔

دلائی لاما اور چینی حکومت کے مابین مذاکرات کا موجودہ دور ایسی مکالمت کا مجموعی طور پر آج تک کا کوئی پہلا دور نہیں ہے۔ فریقین کے مابین ایسے ہی مذاکرات 2002 میں بھی شروع ہو ئے تھے جن کا 2007 میں ان کے حتمی طور پر ناکام ہوجانے تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔

اب موجودہ مذاکراتی سلسلہ اپنے اختتام تک کتنا کامیاب رہے گا، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم یہ امر یقینی ہے کہ دلائی لاما کی عشروں کی جلاوطنی کے دوران ان کی بیجنگ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی یہ آخری کوشش بہرحال نہیں ہو گی۔