1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دریائے نیلم میں بس گرنے سے کم از کم چوبیس افراد ہلاک

24 ستمبر 2016

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک تیز رفتار بس کے دریائے نیلم میں گرنے سے کم از کم چوبیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے سالانہ ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2QYIm
Pakistan Bombenanschlag auf einen Bus in Peschawar
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

مظفر آباد کے مقامی پولیس افسر اسلم خان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ایک بس دریائے نیلم میں جا گری، جس کے باعث کم از کم چوبیس افراد مارے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امدادی کارکنوں کو ابھی تک صرف چار لاشیں ہی مل سکی ہیں۔

اس پولیس افسر کا کہنا تھا کہ دیگر افراد کی لاشیں دریائے نیلم کے تیز پانی کے ساتھ بہہ گئی ہیں اور انہیں تلاش کرنے کے لیے امدادی کارروائیوں کا سلسلہ فی الحال جاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ حادثہ مظفرآباد سے تقریبا پچاس کلومیٹر شمال میں پیش آیا۔

اس حادثے میں صرف ایک شخص زندہ بچا ہے۔ اس خوش قسمت شخص کا کہنا تھا کہ بس میں مجموعی طور پر پچیس افراد سوار تھے۔ حکام کے مطابق بس تیز رفتاری سے جا رہی تھی تاہم حادثے کی دیگر وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈرائیور تھکاوٹ کا شکار ہو کر سو گیا ہو۔

Pakistan Überschwemmung in Peschawar
تصویر: Reuters/K. Parvez

پاکستان کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور بیشتر علاقوں میں ٹریفک کے قوانین پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی حالت پر بھی بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور ساتھ ہی بے پروا ڈرائیونگ بڑے بڑے حادثات کی وجہ بنتی ہے۔

رواں برس اپریل میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بس اور ٹرک کے مابین ہونے والے تصادم میں انیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کے جنوبی شہر کراچی کے قریب بس اور آئل ٹینکر کے حادثے میں تقریباﹰ ساٹھ افراد مارے گئے تھے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباﹰ نو ہزار ٹریفک حادثات ہوتے ہیں اور سالانہ ہلاک ہونے والے افراد کی اوسطاﹰ تعداد ساڑھے چار ہزار بنتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں ہزاروں ٹریفک حادثات پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے اور اس طرح ہلاکتوں کی تعداد ممکنہ طور پر اس سے کہیں زیادہ ہے، جتنی حکومتی اعداد و شمار میں بتائی جاتی ہے۔