1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے خلاف پیش قدمی ہو رہی ہے، اوباما

عاطف توقیر5 اگست 2016

امریکی صدر باراک اوباما نے شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف پیش قدمی کا اعلان کیا ہے، تاہم انہوں نے روس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں ’ضروری اقدامات‘ کرنے میں ناکام ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jc27
US-Präsident Barack Obama Pressekonferenz
تصویر: Reuters/J. Ernst

امریکی صدر باراک اوباما نے جمعرات کے روز محکمہ دفاع پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف مسلسل کامیابیاں مل رہی ہیں۔

صدر اوباما نے کہا کہ شام اور عراق میں گزشتہ دو برس سے جاری اتحادی فضائی کارروائیوں کے وجہ سے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ڈھانچا بری طرح تباہ ہوا ہے، جب کہ عراقی فورسز نے حال ہی میں متعدد علاقوں کا قبضہ اس تنظیم سے چھڑا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دینے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

’’مجھے اس پیش رفت پر خوشی ہے، جو ہم نے عراق اور شام میں اس تنظیم کے خلاف کی ہے۔ تاہم ہم ابھی موصل اور رقہ کی آزادی سے دور ہیں۔‘‘

USA Washington Barack Obama feier 55. Geburtstag
اوباما نے شدت پسند تنظیم کے خلاف کامیابیوں پر مسرت کا اظہار کیاتصویر: Getty Images/C. Somodevilla

صدر اوباما نے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا محتاط انداز سے عندیہ بھی دیا، ’’امریکا شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم اب تک روس اس سلسلے میں ضروری اقدامات میں ناکام رہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ روس یا روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔

چھوٹے چھوٹے حملے

اپنی سال گرہ کے دن اس پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اب بھی یہ اہلیت رکھتی ہے کہ وہ چھوٹی سطح کے دہشت گردانہ حملے کر سکے، ’’اسلامک اسٹیٹ یہ جان چکی ہے کہ اگر وہ مٹھی بھر افراد یا صرف ایک آدمی کو بھی تیار کر لے کہ وہ کسی سب وے، کسی پریڈ یا کسی عوامی مقام پر دہشت گردانہ حملہ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کر دے۔ یہ تنظیم اب بھی اسی طرح کے حملے کر کے خوف اور تشویش پیدا کر رہی ہے اور اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

اوباما نے کہا کہ امریکا کو دہشت گرد گروہوں کی جانب سے آن لائن ذریعے سے دماغی طور پر مشکلات کے شکار افراد تک پیغام رسانی پر نگاہ رکھنا ہو گی، کیوں کہ اسی طرح یہ گروہ ان افراد کو ایسی کارروائیوں کے لیے آمادہ کرتے ہیں، ’’ایسے گروہ امریکا کے مقابلے میں یورپ میں زیادہ فعال ہیں۔ تاہم ظاہر ہے کچھ چیزوں کا ہمیں بھی علم نہیں۔ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ ایسے کچھ گروہ یوں بھی فعال ہوں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’دہشت گرد گروہوں کو کم شدت کے حملے کر کے بڑی توجہ حاصل کرنے کا علم ہے۔ ایسے گروہ چھوٹے ہتھیاروں یا آتشیں اسلحے کے ذریعے ایسی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ خدشات یہی ہیں کہ کوئی تنہا فرد یا کوئی چھوٹا گروہ اس طرز کے حملے کر کے عام افراد کو نشانہ بنا سکتا ہے۔‘‘