1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے خلاف مرکزی محاذ بننے والا شامی مسیحی قصبہ

امتیاز احمد22 نومبر 2015

شام کے مسیحی اکثریتی قصبے صدد کے مضافات میں بچے اسی جگہ کھیل رہے ہیں، جہاں توپیں آگ اگلنے کو تیار ہیں اور جا بجا بموں کے ذخیرے نظر آتے ہیں۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی یہاں سے داعش کے خلاف بمباری کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HAHG
Syrien Krieg spielende Kinder vor alter Munition
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Karwashan

صدد کے مضافات میں موجود حکومتی فوجی اور ان کے حمایتی جنگجو ان بچوں کو تفریحی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ بچے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ان کا قدیم شہر سنی انتہا پسند تنظیم داعش کے نشانے پر ہے۔ صدد شہر میں اکثریت شامی آرتھوڈوکس مسیحیوں کی ہے اور ان کو یقین ہے کہ عہد نامہ قدیم کے’بُک آف کنگز‘ باب میں اسی شہر کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس قدیم قصبے کے گرجا گھر ایک عرصے سے فائرنگ کی زد میں ہیں کیونکہ اکتوبر دو ہزار تیرہ سے حکومت اور حکومت مخالف باغی اس شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ فی الحال اس علاقے کا کنٹرول حکومتی فورسز کے ہاتھ میں ہے لیکن داعش کے جنگجو بھی اس کے مضافات ہی میں خیمہ زن ہیں۔ وہاں کے زیادہ تر رہائشی یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ صدد کے میئر سلیمان خلیل کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس علاقے کے بارہ ہزار رہائشیوں میں سے تقریباﹰ ساٹھ فیصد، خاص طور پر بچے اور خواتین یہ علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن مرد اس علاقے کے دفاع کے لیے یہاں ہی موجود ہیں۔‘‘

یہ مسیحی علاقہ حمص سے تقریباﹰ ساٹھ کلومیٹر جنوب میں واقع ہے جبکہ داعش کے جہادی حمص صوبے کے متعدد دیہات اور شہروں پر پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں۔ صدد کے ایک رہائشی کا کہنا تھا، ’’ہم داعش کے ہاتھوں قتل عام سے بھی خوفزدہ ہیں لیکن ہم گرجا گھروں کی ممکنہ تباہی کی وجہ سے بھی خوفزدہ ہیں۔ داعش نے جن جن علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہے، وہاں موجود مذہبی یادگاروں کو تباہ کر چکی ہے۔‘‘

یکم نومبر تک جہادی گروپ اس علاقے سے صرف دس کلومیٹر دوری تک پہنچ چکے تھے جبکہ ان کے حملوں کے نتیجے میں اس علاقے کے متعدد رہائشی ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

بائیس سالہ حسن پہلے ایک دکان پر کام کرتا تھا لیکن اب ہتھیار اٹھائے حکومتی فورسز کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’ہمیں ہمارے مذہب کی وجہ سے داعش سے خطرہ ہے۔ انہوں نے پوری دنیا کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ ہم یہاں اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔ ہم ایسی قتل و غارت کو روکنا چاہتے ہیں، جیسی بہت سے دیگر مسیحی علاقوں میں کی گئی ہے۔‘‘

اس قصبے کی حفاظت کے لیے وہاں مقامی جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ مسیحی ملیشیا (صوترو فورس) بھی موجود ہے۔ حکومتی فوجی زیادہ تر صدد کے مضافات میں تعینات ہیں جبکہ مقامی ذرائع کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ روسی فورسز بھی موجود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ روسی فوجی ’’مشیروں‘‘ کا کام کر رہے ہیں جبکہ وہ متعدد مرتبہ صدد کے عوام کے سامنے بھی آئے ہیں اور ان کا پرتپاک استقبال بھی کیا گیا۔ ایک مقامی شخص کا اپنی تصویر دکھاتے ہوئے کہنا تھا کہ بہت سے نوجوانوں نے روسی فوجیوں کے ہمراہ سیلفیاں بھی بنائی ہیں۔