1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کا سایہ بھی برداشت نہیں کریں گے، راحیل شریف

عاطف توقیر3 اکتوبر 2015

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہےکہ وہ اپنے ملک میں اسلامک اسٹیٹ کا سایہ بھی برداشت نہیں کریں گے۔ اسلامک اسٹیٹ کو القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GiFB
Raheel Sharif
تصویر: picture-alliance/dpa

جمعے کے روز لندن میں واقع رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹوٹ فار ڈیفنس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز سے اپنے خطاب میں جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا، ’جہاں تک داعش کا تعلق ہے، تو پاکستان میں اس کے سائے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔‘

یہ بات اہم ہے کہ رواں برس مئی میں پاکستان کے جنوبی شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں اسماعیلی شیعہ مسلمانوں کی ایک بس پر مسلح افراد نے فائرنگ کر کے 43 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جب کہ اس واقعے کی ذمہ داری عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر قابض دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔ اسلامک اسٹیٹ کو عربی میں داعش کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

Raheel Sharif und Premierminister Nawaz Sharif
راحیل شریف وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات میں (فائل فوٹو)تصویر: picture alliance/Photoshot

اس کے علاوہ پاکستان کے متعدد شہروں میں حال ہی میں اس تنظیم کے حامیوں کے جانب سے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جاتے رہے ہیں۔

راحیل شریف کا اپنے خطاب میں کہنا تھا، ’اسلام آباد میں بھی ایسے افراد ہیں، جو داعش کے ساتھ اپنے اتحاد کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے۔‘

راحیل شریف نے مزید کہا کہ اس شدت پسند گروپ سے نمٹنا امریکا میں گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے دہشت گرد گروہ القاعدہ سے نبردآزما ہونے کے چیلنج سے بھی بڑا ہے، ’’میرے خیال میں مستقبل کا چیلنج داعش ہے۔ یہ بڑا نام ہے۔ القاعدہ کا ایک نام تھا مگر داعش اس سے بھی بڑا نام ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق راحیل شریف ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں اور کراچی جیسے شہر میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف عسکری آپریشن کی وجہ سے ملک میں خاصے مقبول ہیں اور وہ افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مفاہمت اور مذاکرات پر بھی زور دیتے رہے ہیں۔ راحیل شریف نے خدشہ ظاہر کیا کہ طالبان کو اگر مذاکرات کی ٹیبل پر نہ لایا گیا، تو وہ داعش کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں، ’’افغانستان میں مفاہمت انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم نے اسے باقاعدہ طریقے سے انجام نہ دیا، تو طالبان سے ٹوٹنے والے گروہ داعش جیسے بڑے نام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔‘

یہ بات اہم ہے کہ اسلام آباد حکومت نے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان جولائی میں مذاکرات کا پہلا دور پاکستانی علاقے مری میں منعقد کروایا تھا، تاہم طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد اس سلسلے کے دوسرے مجوزہ مذاکرات منسوخ ہو گئے۔

جنرل راحیل شریف ہی کی قیادت میں پاکستانی فوج نے عسکریت پسندوں کے گڑھ کہلانے والے علاقے شمالی وزیرستان میں سن 2014ء میں ’ضرب عضب‘ نامی فوج آپریشن کا آغاز کیا تھا، جب کہ گزشتہ برس دسمبر میں پشاور میں ایک اسکول پر حملے میں 150 طلبہ اور اساتذہ کی ہلاکت کے واقعے کے بعد ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔