1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دائیں بازو کی جرمن جماعت اے ایف ڈی کی ’نگرانی کی جائے‘

شامل شمس10 جولائی 2016

اب جب کہ دائیں بازو کی جرمن جماعت ریاست باڈن وؤرٹیمبرگ میں سامیت مخالف بیانات کے باعث منقسم ہو چکی ہے، ریاست کے وزیر داخلہ نے ملکی انٹیلیجنس اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اے ایف ڈی پر نظر رکھیں۔

https://p.dw.com/p/1JMaH
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert

اے ایف ڈی، جو کہ گزشتہ برس مقبول تر ہوتی جا رہی تھی، بعض تجزیوں کے مطابق اِمسال جنوری سے مشکلات کا شکار ہے اور اس کی مقبولیت نچلی ترین سطح پر ہے۔

باڈن وؤرٹیمبرگ ریاست کے وزیر داخلہ ٹوماس اشٹروبل نے، جن کا تعلق چانسلر انگیلا میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (سی ڈی یو) سے ہے، کہا ہے کہ آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) جماعت کو جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی نگرانی میں رکھنا چاہیے۔ یہ بات جرمن اخبار ’فرانکفورٹر الگمائنے زونٹاگ سائٹنگ ‘ نے اپنی اتوار 10 جولائی کی رپورٹ میں بتائی ہے۔

ریاستی وزیر داخلہ کہتے ہیں: ’’انٹیلیجنس اداروں کو اے ایف ڈی اور پارٹی اراکین پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر نگرانی کی وجوہات موجود ہیں تو ہمیں عمل بھی کرنا چاہیے۔‘‘

اشٹروبل کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چند روز قبل اے ایف ڈی کے ایک ریاستی قانون دان نے یہودیت مخالف بیانات دیے تھے، جس کے بعد اس حوالے سے بحث کا آغاز ہو گیا تھا۔ وولفگانگ گیڈیون نے اپنی ماضی کی تحریوں میں ہولوکاسٹ کی شدت کو کم تر بتایا تھا اور یہودیت کو ’مغربی مسیحیت‘ کا ’اندرونی دشمن‘ قرار دیا تھا۔

ان کے ان خیالات کے منظر عام پر آنے کے بعد ریاست میں اے ایف ڈی دو حصوں میں منقسم ہو گئی تھی۔ ریاستی پارلیمان میں اے ایف ڈی کے لیڈر یؤرگ مؤتھین نے ایک نئی جماعت آلٹرنیٹو فار باڈن وؤرٹیمبرگ بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔

اخبار میں یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ جرمن انٹیلیجنس ایجنسی بی ایف وی اور سلامتی کے دیگر ریاستی اداروں نے تفتیش کی ہے کہ آیا اے ایف ڈی اور اس کے رجحانات پر نظر رکھنا ضروری ہے یا نہیں۔ اخبار کے مطابق اے ایف ڈی کے رہنما پہلے ہی سے نگرانی میں ہیں۔

اس حوالے سے باویریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ بورکہارڈ کؤیرنر کہتے ہیں، ’’ہم اے ایف ڈی کے ان عہدے داروں کی نگرانی کر سکتے ہیں جن پر ہمیں شبہ ہے کہ وہ انتہا پسندانہ رجحانات رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ رجحانات بعض کیسوں میں پائے بھی ہیں۔‘‘

مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض کیس مسلمانوں کے خلاف رجحانات اور دائیں بازو کے نظریات پر مشتمل تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید