1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا کی پندرہ رکنی کابينہ کی حلف برداری

فریداللہ خان، پشاور
27 جنوری 2023

صوبہ خیبر پختونخوا کی پندرہ رکنی کابينہ نے آج بروز جمعہ حلف اٹھا ليا ہے۔ کابینہ میں صنعت کار، سرمایہ دار، بیورو کریٹ سابق خاتون جج اور سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ افراد شامل ہيں۔

https://p.dw.com/p/4MnHK
Pakistan Kinderrechte
تصویر: Faridullah Khan/DW

صوبہ خیبر پختونخوا کی پندرہ رکنی کابینہ کے ارکان نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔ صوبے کے گورنر حاجی غلام علی نے ان سے حلف لیا۔ نگراں کابینہ میں ایک سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کے سمدھی بھی شامل ہيں۔ پانچ سیاسی اور چار کاروباری شخصیات کے علاوہ ایک سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور پشاور ہائی کورٹ کی سابق خاتون جج ارشاد قیصر بھی کابينہ کا حصہ ہيں۔ جسٹس (ر) ارشاد قیصر کے علاوہ کابینہ میں شامل ارکان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے يا وہ کسی جماعت کا کوئی رشتہ دار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ البتہ جمیعت علما اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے تحفظات

پاکستان تحریک انصاف کے ايک ترجمان شوکت علی یوسف زئی نے نگران کابینہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھايا، 'نگران وزیر اعلیٰ نے کس کے کہنے پر صوبائی کابینہ کی تشکيل کے ليے گورنر سے مشاورت کی؟‘

پاکستانی روپیہ ڈالر کے سامنے ڈھیر ہوگیا

پاکستان ميں انتخابات کے التوا کی خبريں، امکانات اور ممکنہ اثرات

کفایت شعاری کے ليے تجویز، ’حاکم طبقہ قربانی دے‘

يوسف زئی کا دعوی ہے کہ کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ''گورنر نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو کابینہ میں شامل کیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم نے اس ليے کوئی نام نہیں دیا کہ نگران کابینہ غیر جانبدار رہے اور شفاف الیکشن کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔‘‘ یوسف زئی کے بقول اس عمل ميں صوبے کی بڑی سیاسی جماعت کو نظر انداز کیا گیا۔

نگران کابینہ کے محدود اختیارات

محدود اختیارات کے باوجود کئی سرمایہ دار اور صنعت کار کابینہ میں جگہ پانے کے ليے متحرک رہے۔دوسری جانب متعدد افراد نے حکومت کا حصہ بننے سے معذرت بھی کی۔ نگراں وزراء کو منتخب ارکان اسمبلی کے برعکس صرف روز مرہ کے امور نمٹانے کے اختیارات حاصل ہیں۔

پی ٹی آئی نمائندگی سے محروم

صوبائی اسمبلی میں سابقہ طور پر دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کو ایک ہفتے کے اندر نگران کابینہ سے بھی نکال ديا گيا۔ ایک ہفتہ قبل صوبائی کابینہ میں پی ٹی آئی کے ارکان تھے تاہم نگران کابینہ میں يہ جماعت نمائندگی سے محروم ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کی تنقید

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے نگران کابینہ کو وزرا کی 'بندر بانٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ''نگران کابینہ کے ليے پی ٹی آئی کی قیادت سے کسی نے مشاورت نہیں کی۔ وفاق میں حکمران جماعتوں نے آپس میں وزاتیں بانٹ لی ہیں اور اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا ایک بھی وزیر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کی 'بی‘ ٹیم ہے۔

پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اپنے حمایتی لوگوں کو کابینہ میں شامل کيا، جن میں معروف بزنس مین حاجی فضل الٰہی ،عدنان جلیل اور حاجی غفران شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کی کابینہ میں اکثریت سرمایہ داروں اور ارب پتی تاجروں کی ہے، جن پر اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ دراصل بعض سیاسی جماعتوں کے فنانسر ہیں۔ نگران کابینہ میں ضم قبائلی اضلاع سے بھی دو کاروباری شخصيات کو شامل کيا گيا ہے، جو منظور آفریدی اور تاج آفریدی ہیں۔

سندھ، زمین کے تنازعات پر قتل و غارت اور تباہ ہوتی نسلیں