1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر ایجنسی میں زمینی، فضائی آپریشن: تیرہ دہشت گرد ہلاک

مقبول ملک اے پی
21 جولائی 2017

پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں ملکی فوجی دستوں کے افغان سرحد کے قریب زمینی آپریشن اور فضائی حملوں میں تیرہ عسکریت پسند مارے گئے۔ ان مسلح کارروائیوں میں ایک پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/2gv0c
Pakistan MI-17 Hubschrauber
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ اکیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس کارروائی کے دوران پاکستانی فوج نے افغانستان کے ساتھ ملکی سرحد کے بہت قریب  عسکریت پسندوں کے کئی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس دوران سکیورٹی دستوں اور دہشت گردوں کے مابین شروع ہو جانے والی لڑائی میں ایک پاکستانی فوجی بھی مارا گیا۔

پاکستانی فوج کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس لڑائی میں 13 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ زمینی سکیورٹی دستوں کو اس کارروائی کے دوران ملکی فضائیہ کی مدد بھی حاصل تھی، جس نے شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو اپنے ہوائی حملوں کا ہدف بنایا۔ پاکستانی فوج کی طرف سے اس آپریشن کی اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

افغان سرحد کے پاس پاکستانی فوجی کیمپ پر خود کش حملہ ناکام

خیبر پختونخوا میں اسکول اور گھروں پر دستی بموں سے حملے

قبائلی ایجنسیوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے گا

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ کارروائی پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام متعدد قبائلی علاقوں میں سے ایک خیبر ایجنسی میں اس آپریشن کا حصہ تھی، جو حال ہی میں شروع کیا گیا تھا اور جسے ’خیبر فور‘ کا نام دیا گیا ہے۔

گزشتہ ویک اینڈ پر شروع کیے جانے والے اس ملٹری آپریشن کا مقصد اس علاقے سے ان مقامی اور غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ ہے، جنہوں نے تقریباﹰ لاقانونیت والے اس سرحدی علاقے میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔

آپریشن خیبر فور: مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟

پاکستان آرمی نے اس آپریشن کا آغاز اس لیے بھی کیا تھا کہ ہمسایہ ملک افغانستان سے، جس کی سرحد ان قبائلی علاقوں سے ملتی ہے، دہشت گرد پاکستانی علاقے میں داخل ہو کر کوئی شدت پسندانہ حملے نہ کر سکیں۔

پاکستان نے افغانستان سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ بھی مشترکہ سرحد کے پار اپنے ریاستی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف ایسی ہی مسلح کارروائیاں کرے۔

پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایک دوسرے پر اکثر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں میں سے ہر ایک میں خونریز حملے کرنے والے دہشت گرد زیادہ تر واقعات میں سرحد پار کر کے آتے ہیں اور پھر واپس اپنے ان محفوظ ٹھکانوں میں واپس چلے جاتے ہیں، جو انہوں نے بین الاقوامی سرحد کے پار بنا رکھے ہیں۔

اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ پاکستان یا افغانستان میں ہر نئے اور بڑے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسلام آباد اور کابل کے مابین سفارتی اور عسکری تعلقات نئے سرے سے کشیدہ ہو جاتے ہیں۔