1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلوائی کے بھائی کا انتقام: لڈوؤں میں زہر، درجنوں افراد ہلاک

مقبول ملک6 مئی 2016

پاکستانی صوبہ پنجاب میں زہریلی مٹھائی کھانے سے درجنوں افراد کی حالیہ ہلاکت کی تفتیش کرنے والے پولیس حکام کے مطابق ان اموات کی وجہ لڈو تیار کرنے والے حلوائی کا وہ ناراض بھائی بنا، جس نے مٹھائی میں زہر ملا دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1IjBm
Indien Laddoos in Jharkhand
تصویر: Getty Images/AFP/STR

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ چھ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں فتح پور کے علاقے میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں پیش آیا تھا۔

اس بارے میں پولیس ذرائع نے جمعے کے روز جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا کہ عام لوگوں میں اتنے بڑے پیمانے پر اس زہر خورانی کا سبب لڈو تیار کرنے والے حلوائی کا ایک بھائی بنا تھا، جس کی اپنے بھائی سے رنجش چل رہی تھی۔

پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے بھائی سے انتقام لینے کے لیے مٹھائی میں زرعی کیڑے مارنے والی ایک دوائی ملا دی تھی اور اس نے اپنے اس جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ اس واقعے میں فتح پور کے علاقے کے ایک حلوائی نے جو لڈو تیار کیے تھے اور جن میں ملزم نے انتہائی زہریلی زرعی کیڑے مار دوائی ملا دی تھی، وہ لڈو خرید کر ایک قریبی گاؤں کا ایک شخص اپنے گھر لے گیا تھا۔

اس دیہاتی نے یہ لڈو اپنے پوتے کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کے لیے اپنے رشتے داروں اور علاقے کے لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے خریدے تھے۔ لیکن یہ لڈو کھانے کے نتیجے میں نہ صرف 30 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے بلکہ درجنوں دیگر ابھی تک زیر علاج ہیں اور ایک مقامی ہسپتال میں ان کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔

ڈی پی اے کے مطابق شروع میں پولیس نے کہا تھا کہ یہ مٹھائی اس وجہ سے زہریلی ہو گئی تھی کہ دکان پر کام کرنے والے ایک ملازم نے وہاں موجود اور ایک ڈبے میں بند مائع جراثیم کش دوائی کو وہ محلول سمجھ لیا تھا، جو مٹھائی میں بہتر ذائقے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔

Eid Zuckerfest Süßigkeiten
تصویر: picture-alliance/dpa

اس بارے میں پنجاب پولیس کی خاتون ترجمان نبیلہ غضنفر نے کہا، ’’بعد میں تفصیلی چھان بین سے معلوم ہوا کہ یہ بہت زہریلی جراثیم کش دوائی اس مٹھائی میں جان بوجھ کر ملائی گئی تھی۔‘‘ نبیلہ غضنفر نے بتایا، ’’پولیس یہ تصدیق کر سکتی ہے کہ حلوائی کے ایک چھوٹے بھائی نے اعتراف کر لیا ہے کہ اسی نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ لڑائی کے بعد ان لڈوؤں میں زرعی زہر ملایا تھا۔‘‘

اس واقعے کے بعد سے مجموعی طور پر سات افراد ابھی تک پولیس کی حراست میں ہیں، جن میں مٹھائی کی اس دکان کا مالک حلوائی اور اس کا چھوٹا بھائی بھی شامل ہیں۔

ان زہریلے لڈوؤں کو کھانے سے 30 سے زائد میں سے پہلی چند اموات تو فوری طور پر ہو گئی تھیں جبکہ باقی بہت سے افراد زہر خورانی سے بعد کے چند دنوں میں انتقال کر گئے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ علاقے میں مناسب طبی سہولتوں کی عدم موجودگی بنی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں