1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حاليہ يورپی اقدامات سے افغان مہاجرين نالاں

عاصم سليم11 اکتوبر 2015

حاليہ يورپی فيصلوں کے تحت سياسی پناہ کے معاملے ميں شام اور عراق کے مہاجرين کو ترجيح دی جا رہی ہے ليکن اس پيش رفت سے افغان باشندے نالاں ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ساتھ’مساوی سلوک‘ کيا جائے۔

https://p.dw.com/p/1GmM3
تصویر: Majeed/AFP/Getty Images

شورش زدہ ملکوں سے بہت دور يورپی حکومتوں نے متعدد اجلاسوں ميں يہ فيصلہ تو کر ليا کہ سياسی پناہ دينے کے معاملے ميں شامی شہريوں کو دوسروں پر فوقيت دی جائے، ليکن يونانی جزيزے ليزبوس ميں موجود 22 سالہ افغان مہاجر سجاد يورپی رہنماؤں کو يہ پيغام دينا چاہتا ہے کہ اُن کا فيصلہ غلط ہے۔

ليزبوس کی بندرگاہ پر موجود سجاد ’مساوی سلوک‘ کا مطالبہ کرتا ہے اور يورپی حکومتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ اِس فيصلے سے متفق نہيں۔ اُس کا کہنا ہے، ’’بے شک ميں پناہ گزين ہوں۔ اگر وہ يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں حالات رہنے کے قابل ہيں، تو آپ لوگوں کے حکومتی اہلکاروں کو خود ہی وہاں چلے جانا چاہيے۔‘‘

سجاد کے بقول اُس نے سنا تھا کہ يورپ نے مہاجرين کے ليے اپنے دروازے کھول ديے ہيں۔ ليکن اب سننے ميں آيا کہ يورپی يونين کی قريب 160,000 مہاجرين کو خطے کے مختلف ممالک ميں پناہ دينے کی اسکيم ميں افغان شہری شامل نہيں، تو وہ اِس بات کا تعين نہيں کر پايا کہ اِس فيصلے پر ہنسے يا ناراضگی کا اظہار کرے۔ سجاد کے بقول اب وہ سويڈن کا رخ کرے گا ليکن اُسے يہ نہيں معلوم کہ کون سا يورپی ملک اُسے پناہ دے گا۔

Griechenland Auseinandersetzung Polizei Flüchtlinge auf Lesbos
تصویر: picture-alliance/epa/S. Balaskas

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کے اعداد و شمار کے مطابق شام، عراق يا اریٹريا کے شہريوں کو سياسی پناہ ديے جانے کا تناسب 75 فيصد ہے جبکہ اِس کے مقابلے ميں 64 فيصد افغان باشندوں کی سياسی پناہ کی درخواستيں منظور ہوتی ہيں۔ اقوام متحدہ نے افغانستان چھوڑنے والے کئی ملين افغان باشندوں کی وطن واپسی کے ليے عالمی سطح پر کوششوں کا کہا ہے۔ عالمی تنظيم نے مختلف ممالک ميں موجود افغان شہريوں کو واپس وطن جانے کا مشورہ دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے کے مطابق اِن کی واپسی سے افغانستان ميں سلامتی اور استحکام پیدا ہو گا۔

يونان ہی ميں موجود سجاد کا بھتيجہ بسم اللہ کہتا ہے کہ اگر يورپی ممالک نے افغان مہاجرين کے ليے دروازہ بند کيا، تو وہ خيمہ ڈال کر وہيں قيام کرے گا۔ اُس نے کہا، ’’ہم بڑی تعداد ميں ہيں اور اِس بات سے ہميں ہمت ملتی ہے۔‘‘ بسم اللہ کے ليے جلا وطنی کوئی نئی چيز نہيں۔ وہ اپنے بچپن ميں اہل خانہ کے ہمراہ افغانستان سے پاکستان جا کر وہاں وقت گزار چکا ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ اس سال ترکی سے يونانی ساحلوں پر پہنچنے والے قريب 400,000 افراد ميں شامی شہريوں کے بعد سب سے بڑی تعداد افغان شہريوں کی ہے۔ يہ گزشتہ سال کے مقابلے ميں دس گنا زيادہ ہے۔ شام کے علاوہ ديگر ممالک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی طرح افغانوں کے انگوٹھوں کے نشان لے کر ان کو ايک دستاويز دے دی جاتی ہے، جس ميں انہيں يونان چھوڑنے کے ليے ايک ماہ کا وقت ديا جاتا ہے۔ اس دستاويز کی مدد سے مہاجرين ليزبوس چھوڑنے اور ديگر کسی مقام پر جانے کے ليے ٹکٹ خريد سکتے ہيں۔

کچھ واقعات ميں بسم اللہ سميت کئی ديگر مہاجرين اپنی اصل عمر چھپا کر کم عمر ہونے کا دعوٰی کرتے ہيں کيونکہ انہيں کم عمری کے سبب پناہ ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ تاہم يہ ہتھکنڈہ ہميشہ کامياب نہيں ہوتا۔ اس سال موسم گرما ميں جب ايک بڑی تعداد ميں شامی اور افغان باشندے يونانی جزائر پر موجود تھے تو ان دونوں گروپوں کے مابين مسلسل کشيدگی بھی پائی جاتی تھی۔

يورپی يونين کی مہاجرين کو ايک کوٹے کے تحت مختلف يورپی ممالک ميں پناہ دينے سے متعلق اسکيم کی اہليت کے ليے، ايتھنر حکام کو پہلے ديگر رکن رياستوں کو يہ يقين دلانا ہو گا کہ وہ قابل بھروسہ انداز ميں مستحق مہاجرين اور معاشی مہاجرين کی تقسيم کر سکتے ہيں۔ يورپی بلاک کی ايجنسی Frontex نے متعدد يونانی جزائر ميں اندراج کے ليے معاوت فراہم کرنے کے ليے 600 آفيسر بھيجنے کا اعلان کيا ہے۔