1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہاد کے لیے شام، عراق جانے والے جرمنوں کی تعداد میں اضافہ

مقبول ملک13 مئی 2016

جرمنی میں داخلی سلامتی کے نگران خفیہ ادارے کے مطابق جہاد کے لیے شام اور عراق جانے والے جرمن شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب کم از کم بھی 820 بنتی ہے۔ ان میں 20 کے قریب نابالغ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Inek
Abu Askar Screenshot Video Internet Deutsche Terroristen Deutschland Islamisten
جرمنی سے شام جانے والے ایک جہادی ابوعسکر کی داعش کی ایک ویڈیو سے لی گئی تصویرتصویر: picture-alliance/dpa/Internet

جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ تیرہ مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اندرون ملک سلامتی کے ذمے دار جرمن ادارے کے مطابق اب تک جہادیوں کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے کم از کم بھی 820 افراد جرمنی سے شام اور عراق جا چکے ہیں۔

اس رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین یا BfV کے سربراہ نے کہا ہے کہ دو حالیہ حملوں کے بعد جرمنی میں مسلمان یا نومسلم نوجوانوں میں پائی جانے والی انتہا پسندانہ اور بنیاد پرستانہ سوچ زور پکڑتی نظر آتی ہے۔

بی ایف وی کے سربراہ ہنس گیورگ ماسین نے بتایا ہے کہ ان کے ادارے کے پاس موجود تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی سے جو 800 سے زائد افراد مشرق وسطیٰ کے خونریز تنازعات کے شکار ملکوں کو گئے، ان میں سے 40 کے قریب افراد کی عمریں 18 برس سے کم تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قانونی طور پر نابالغ ہوتے ہوئے بھی جہادیوں کی سوچ کے حامی بن چکے تھے۔

ہنس گیورگ ماسین نے بتایا کہ ان 40 افراد میں سے 20 کے قریب نابالغ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم یہ رجحان دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان لوگ زیادہ تیز رفتاری سے اور مستقل طور پر بنیاد پرستانہ سوچ کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

Deutschland Verfassungsschutz-Symposium Hans-Georg Maaßen in Berlin
داخلی سلامتی کے نگران جرمن خفیہ ادارے کےسربراہ ہنس گیورگ ماسینتصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache

جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، دو حالیہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے وفاقی ادارہ برائے تحفظ آئین کے سربراہ نے جہادی رجحانات رکھنے والے ان باشندوں کے بارے میں کہا، ’’یہ بات خاص طور پر پریشان کن ہے کہ یہ لوگ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس کی دعوت پر اپنے ہی ملک میں غیر مسلموں کو قتل کرنے کی کوششوں جیسے انتہائی اقدامات پر نہ صرف تیار ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی اس سوچ پر عمل بھی کرنے لگتے ہیں۔‘‘

ان واقعات کا پس منظر واضح کرتے ہوئے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ جرمن پولیس نے ملک میں سکھوں کے ایک گردوارے پر دھماکے کی صورت میں تین افراد کے زخمی ہو جانے کا سبب بننے والے ایک حملے کے بعد دو ایسے ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا، جو دونوں ہی سولہ سولہ برس کے تھے۔ یہ حملہ جرمن شہر اَیسن میں اس وقت کیا گیا تھا جب اس گردوارے میں شادی کی ایک تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ پولیس کے مطابق یہ حملہ اسلام پسندانہ سوچ سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا۔

اسی طرح ایک دوسرے حملے میں فروری میں شمالی شہر ہینوور میں ایک 15 سالہ لڑکی نے ایک پولیس اہلکار پر چاقو سے حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں پولیس اہلکار کو گردن پر شدید زخم آیا تھا۔ وفاقی دفتر استغاثہ کے مطابق نابالغ ملزمہ نے یہ حملہ اپنی طرف سے جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے ایک ’آپریشن‘ کے طور پر کیا تھا۔

Deutschland Terror-Prozess in Frankfurt am Main Halil D. Angeklagter
جرمن شہر فرینکفرٹ میں اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے والا ایک مبینہ مسلم عسکریت پسندتصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

دریں اثناء بی ایف وی نے متعلقہ ریاستی اداروں سے درخواست کی ہے کہ اس ڈومیسٹک انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکاورں کو 16 سال سے کم عمر کے ایسے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ذاتی ڈیٹا حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کی اجازت دی جائے، جن پر شدت پسندی کا شبہ ہو۔

ہنس گیورگ ماسین کے مطابق ان 820 افراد میں سے جو اب تک جہادیوں میں شامل ہونے کے لیے جرمنی سے باہر گئے تھے، قریب ایک تہائی واپس جرمنی لوٹ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے اب تک قریب 140 شام اور عراق میں مارے بھی جا چکے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں اسی خفیہ ادارے نے یہ کہا تھا کہ تب تک جرمنی سے مسلح تنازعات والے مختلف علاقوں میں جانے والے اسلام پسندوں کی تعداد 740 تھی، جو تازہ اعداد و شمار کے مطابق اب 820 بنتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں