جوہری دہشت گردی ابھی بھی عالمگیر خطرہ، اوباما
27 مارچ 2012جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں 53 ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ایٹمی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں سے عالمی امن کو لاحق ممکنہ دہشت گردانہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہو گی کہ سیول کانفرنس کے مندوبین اس بارے میں کیا فیصلے کرتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں اس بین الاقوامی نیو کلیئر سکیورٹی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے جوہری مادوں کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے امریکی صدر نے منگل کی صبح اس کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز عالمی رہنماؤں اور سرکردہ مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’دنیا کی سلامتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کیا فیصلے کرتے ہیں۔‘
بین الاقوامی سطح پر نیو کلیئر سکیورٹی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا آغاز امریکی صدر اوباما نے سن 2010 میں واشنگٹن میں ہونے والی ایک سربراہی کانفرنس کے ذریعے کیا تھا اور سیول کانفرنس میں شرکاء اس مقصد کے حصول کے لیے اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اس پس منظر میں باراک اوباما نے کہا، ’ہم یہاں اپنے وہ وعدے پورے کر رہے ہیں جو ہم نے واشنگٹن میں کیے تھے۔‘ ساتھ ہی امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ اب تک ایٹمی تنصیبات کی سکیورٹی مزید سخت کی جا چکی ہے اور وہ ایٹمی مادے جو ممکنہ طور پر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے تھے، یا تو اپنی جگہوں سے ہٹائے جا چکے ہیں یا تلف کیے جا چکے ہیں۔
باراک اوباما نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا، ’یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب ایسے زیادہ سے زیادہ ایٹمی مادے کبھی بھی ان دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگ سکیں گے جو انہیں بڑی خوشی سے ہمارے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘
تاہم امریکی صدر نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہی خطرہ آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی بہت سے برے عناصر ایسے ہیں جو ان خطرناک مادوں کی تلاش میں ہیں اور دنیا بھر میں بہت سی جگہیں تاحال ایسی ہیں جہاں ایسے تباہ کن مادے منفی قوتوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔
امریکی صدر کے بقول ایسی کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے لیے بہت زیادہ جوہری مادے درکار نہیں ہوں گے بلکہ ایسے تھوڑے سے خطرناک مادوں کے ساتھ ہی لاکھوں معصوم انسانوں کی زندگیوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
باراک اوباما نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مستقبل قریب میں یہ سیول میں ہونے والی ’اسی کانفرنس کا نتیجہ ہو گا کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ شہریوں کی زندگیوں کو ایٹمی دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ بنایا جا سکے گا۔‘
سیول میں آج ختم ہونے والی اس کانفرنس کے بعد امریکی صدر پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔ قومی سلامتی کے امریکی نائب مشیر بین روہڈز کے مطابق اس ملاقات میں باراک اوباما کوشش کریں گے کہ واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات میں موجودہ کھچاؤ میں کمی لاتے ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ حد تک معمول پر لایا جائے۔
آج ہونے والی اوباما اور گیلانی کی یہ ملاقات پچھلے سال مئی میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ امریکی فوجی آپریشن میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان اب تک کی سب سے اعلیٰ سطحی ملاقات ہو گی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین