1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوب مشرقی ایشیائی سیاست میں فوج کا کردار

26 ستمبر 2006

تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت سے یہ بات ایک مرتبہ پھر اُجاگر ہوئی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں پچھلے 20 برسوں کے دوران وسیع پیمانے پر جمہوری اصلاحات کے باوجود مسلح افواج کا سیاست میں کردار اب بھی پہلے جتنا گہرا ہے۔ اِس خطے میں کمزور ریاستی ڈھانچوں، بااثر طبقات کے درمیان مقابلے بازی اور شخصیتوں کے زیرِ اثر سیاسی جماعتوں کی وجہ سے آزادانہ انتخابات کروانے والے ملکوں میں بھی فوج اپنی اہمیت اور ضرورت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/DYJ8
تھائی لینڈ کے معزول وزیرِ اعظم تھاکسن شیناواترا
تھائی لینڈ کے معزول وزیرِ اعظم تھاکسن شیناواتراتصویر: AP

جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم ASEAN میں شامل 10 ریاستوں میں سے چار میں اِس وقت یا تو فوجی حکومت ہے یا پھر فوج کی حمایت سے حکومتیں قائم ہیں۔ اِن ملکوں میں Myanmar یعنی برما، ویت نام، لاﺅس اور اب ایک بار پھر تھائی لینڈ شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات دراصل جمہوری نظام کا ایک حصہ ہیں اور مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچوں کے بغیر انتخابات غیر جمہوری حالات کو جنم دے سکتے ہیں۔

Myanmar کی فوجی قیادت برسوں سے حکومت پر اپنی گرفت نرم کرنے کے ASEAN کے مطالبات مسترد کرتی آرہی ہے۔ اب تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ Myanmar کے فوجی حکمراں اِس مثال کو اپنے حق میں جواز کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں 1930 کے عشرے سے فوجی حکومتیں برسرِ اقتدار رہیں، پھر 1992 سے ابھی حالیہ بغاوت تک ملک میں جمہوری حکومتیں رہیں۔ معزول وزیرِ اعظم Thaksin Shinawatra تھائی لینڈ کے وہ پہلے منتخب سربراہِ حکومت تھے جنھوں نے اپنی چار سالہ مدت پوری کی لیکن 2005 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے وہ اپوزیشن کے ساتھ اقتدار کی ایسی کشمکش میں پھنسے کہ اُس معاملے کو نہ تو فوری انتخابات اور نہ ہی عدالتیں حل کر سکیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فوج کو مداخلت کا موقع اُس وقت ملتا ہے جب یہ تاثر پیدا ہو جائے کہ جمہوری ادارے اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نہیں رہے۔ ایک اور مثال فلپائن کی ہے جہاں اگرچہ ایک آزاد خیال سیاسی نظام موجود ہے لیکن تقریباً 20 سال قبل آمر حکمران Ferdinand Marcos کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد اب بھی فلپائن کو وقتاً فوقتاً فوجی دخل اندازی کا خطرہ رہتا ہے۔

اِسی طرح کیمبوڈیا، ویت نام اور لاﺅس میں بھی سیاسی انتظامیہ کو ابھی تک فوج سے الگ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ویت نام اور لاﺅس میں نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف مسلح جدو جہد کے نتیجے میں جو حکومتیں برِسرِاقتدار آئی تھیں ظاہر ہے اُنھیں فوج کی حمایت حاصل تھی لیکن وہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ویت نام میں تو فوج کو غیر سرکاری طور پر ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔

اِس پورے منظر نامے میں اُمید کی ایک کرن ASEAN کا سب سے بڑا رکن ملک انڈونیشیا ہے۔ 1998 میں جنرل سوہارتو کے طویل دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد انڈویشیا آزادانہ انتخابات کرانے میں کامیاب رہا۔ اگرچہ انڈونیشیا کی شہری انتظامیہ میں بیشتر اعلیٰ عہدوں پر ریٹائرڈ فوجی افسران فائز ہیں لیکن حکومت سازی میں اب وہاں فوج کا بظاہر کوئی اثر و رسوخ نہیں رہا۔

جہاں تک بات رہی سنگاپور اور ملیشیا کی تو وہاں فوج سیاسی طور پر غیر جانبدار ہے۔ تاہم سنگاپور میں فوجی اثر و رسوخ کا انداز زرا مختلف ہے۔ تمام مردوں کو 18 سال کی عمر میں دو سال کی مکمل عسکری تربیت سے گزرنا پڑتا ہے جس کا مقصد اُن میں نظم و ضبط اور ملک سے وفاداری کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ سنگاپور میں فوج، اعلیٰ تعلیمی اور نجی کاروباری ادارے ہی ملک کی سیاسی قیادت کے لئے باصلاحیت لوگوں کی تلاش کا زریعہ ہیں۔ سنگاپور کے موجودہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ دونوں ہی سیاست میں آنے سے پہلے برگیڈیئر جنرل تھے۔