1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی دھندہ: سوشل میڈیا پر نوجوان لڑکیوں کے لیے جال

عابد حسین17 نومبر 2015

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر خواتین کے اسمگلرز پریشان حال نوجوان لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانسنے کی مسلسل کوشش میں رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں سوشل میڈیا اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H76W
Facebook in Libanon
تصویر: DW/M. Atwi

پریشان حال نوجوان لڑکیوں کو پھانسنے کے لیے جنسی کاروبار کے گھناؤنے کھیل میں ملوث افراد ہمہ وقت مصروف ہیں۔ یہ گھاگ لوگ انسٹاگرام، فیس بُک، کِک، ٹیگڈ، ٹویٹر کے ساتھ ساتھ واٹس اپ اور اسنیپ چیٹ کے ذرائع پر رہتے ہوئے پریشان حال لڑکیوں کا کھوج لگاتے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی پریشان حال ٹین ایجر اپنے ’خود ساختہ‘ دکھوں اور پریشانیوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہے، ان میں سے کوئی بھی اُس کا ہمدرد بن کر دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایسی لڑکی اُن کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے تو پھر اُس کو جسم فروشی کی مارکیٹ میں بیچنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

Bildergalerie Neue Persische Wörter
سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر پریشان حال نوجوان لڑکیاں بعض اوقات میٹھے بول کے جادو میں آ جاتی ہیںتصویر: Photographee.eu - Fotolia

امریکی لڑکی نکول بھی ایسی ہی ایک ٹین ایجرز ہے، جو پریشانی میں کسی ایسے چالاک مرد کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ اُس کو فیس بُک پر کسی شخص نے ہمدردی کے ایسے میٹھے بول سنائے کہ وہ اُس کی جانب امڈ گئی۔ نکول کی پریشان اُس وقت ہوئی، جب اُس کی والدہ کو کسی معمولی جرم کے نتیجے میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ سترہ برس کی ٹین ایجر نکول نے ایک اجنبی سے اپنی پریشانی شیئر کی اور پھر اِس جال میں ایسی پھنسی کہ امریکی ریاست ٹیکساس سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی تک کئی شہروں میں بکتی چلی گئی۔ وہ تین چار برس تک جسم فروشی کے کاروبار میں کھلونا بنی رہی۔ ایک مرتبہ زبردستی جنسی آبروریزی میں شدید زخمی ہونے کے بعد وہ اُن کے چنگل سے نکل پائی۔

نکول نے اپنی دردناک کہانی ویمن کانفرنس برائے انسدادِ ٹریفکنگ کے پلیٹ فارم پر سنائی۔ نکول کو ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم فیئر گرلز کی بانی اور ڈائریکٹر آندریا پاول کا سہارا بھی حاصل ہوا ہے۔ امریکی دارالحکومت میں خواتین کی جسم فروشی کے لیے غلاموں کے انداز میں خرید و فروخت کے انسداد اور خواتین کے حقوق کے لیے منعقدہ کانفرنس کا اہتمام تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ پاول کے مطابق واٹس اپ یا اسنیپ چیٹ جیسے فورم پر پیغام بھیجتے وقت اِس کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی جنسی اسمگلر کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں اور ایک میسج سے کسی بھی ٹین ایجر یا نوجوان عورت کی ساری زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔

Symbolbild Prostitution Bordell Rotlicht
سوشل میڈیا کے ذریعے کئی لڑکیوں کو انجام کار عصمت فروشی کے اڈوں پر بیٹھنا پڑتا ہےتصویر: picture-alliance/Joker/A. Stein

سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹس اب خواتین کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے وسیع میدان ہے اور یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بن گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ یورپی یونین کی پولیس ایجنسی یوروپول کے ایک اہلکار کے مطابق سوشل میڈیا اور آن لائن ٹیکنالوجی کے ذریعے جسم فروشی کے لیے گاہکوں کا حصول اور نئی بھرتی عام ہو چکی ہے۔ انسانی اسمگلر اپنے جال میں پھنسی لڑکیوں کی باقاعدگی سے نگرانی کرتے ہیں کہ وہ کیسی میسجنگ کرتی ہیں۔ برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی کے مطابق سوشل میڈیا پر جسم فروشی اور لڑکیوں کی اسمگلنگ ایک نیا رجحان ہے اور اِس مناسبت سے متاثرہ خواتین کا کوئی حتمی ڈیٹا میسر نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنینشل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق عالمی سطح پر اکیس ملین افراد اسمگلروں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ دنیا میں سیکس ورکر یا جسم فروشی کی مارکیٹ کا حجم 150 بلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔ امریکی غیر سرکاری تنظیم فیئر گرلز کے مطابق اُس نے امریکی دارالحکومت اور قریبی ریاست میری لینڈ میں سے نوے فیصد متاثرہ لڑکیوں کو ڈھونڈ نکالا ہے اور ان کا نفسیاتی علاج جاری ہے کیونکہ وہ جسم فروشی کے دھندے کی نگرانی کرنے والوں کے جبر کا مسلسل نشانہ بنتی رہی ہیں۔ ویمن کانفرنس میں کئی شرکاء کا خیال تھا کہ ٹین ایجرز اور بچے محبت اور شفقت کے میٹھے الفاظ کے جال میں ایسے پھنستے ہیں کہ دوبارہ نارمل زندگی میں اُن کی واپسی کی امید نہیں رہتی۔