1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

250711 Israel Rechte

25 جولائی 2011

اسرائیل کو عام طور پر ’مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست‘ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ناقدانہ نقطہ نظر کے حامل اسرائیلیوں سمیت بہت سے مبصرین ایسا نہیں سمجھتے۔

https://p.dw.com/p/122xO
اسرائیلی وزیر خارجہ اوگڈور لیبرمن
اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمنتصویر: AP

ان مبصرین کے اس موقف کی وجہ اِس یہودی ریاست کا وہ سلوک ہے، جو فلسطینیوں، اسرائیل کے عرب شہریوں یا پھر انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ اسرائیل کی داخلہ سیاست میں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثرات بھی اسرائیل کے جمہوری تشخص کے لیے ایک آزمائش بن رہے ہیں۔

حال ہی میں یروشلم میں نکالے گئے ایک جلوس میں نوجوان اسرائیلی ’لیفٹسٹ مردہ باد، لیفٹسٹ مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اسرائیل میں دائیں بازو کے عناصر میں خود اعتمادی بھی ہے اور جارحیت بھی اور اُنہیں پارلیمان میں بھی وسیع تر اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ یروشلم کے اسرائیلی ماہر سیاسیاست یارون ایزراہی کے خیال میں حکمران مخلوط حکومت میں شامل کم از کم دو جماعتیں یعنی انتہائی قدامت پسند جماعت شاس اور ’ہمارا گھر اسرائیل‘ اپنے نظریات کے اعتبار سے جمہوری نہیں ہیں۔

پارلیمان میں اسرائیلی اپوزیشن کی قائد زیپی لیونی
پارلیمان میں اسرائیلی اپوزیشن کی قائد زیپی لیونیتصویر: AP

یارون ایزراہی کہتے ہیں:’’یہ جماعتیں ایک پارلیمانی جمہوریت میں بنیادی طور پر جمہوریت مخالف جماعتیں ہیں۔ اسرائیلی سیاست پر چالیس برسوں سے زاید عرصے سے نظر رکھنے والے ماہر سیاسیات کے طور پر میرا خیال ہے کہ طویل المدتی بنیادوں پر ہمارا جمہوری نظام اتنا مستحکم ضرور ہے کہ ان دھچکوں اور پارلیمان میں غیر جمہوری رویوں کو برداشت کر سکے۔ مستقبل قریب میں مجھے دائیں بازو کے عناصر مستحکم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور مَیں بلا جھجک کہوں گا کہ اِن میں فاشسٹ عناصر بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنے سے مختلف انسانوں کو نفرت اور خوف سے دیکھتے ہیں اور اُن سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘

’ہمارا گھر اسرائیل‘ نامی جماعت کے عوامیت پسند چیئرمین اوگڈور لیبرمن عرب نژاد اسرائیلی شہریوں کے خلاف محاذ بناتے ہوئے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اُنہیں اس میں کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔ دریں اثناء لیبرمن وزیر خارجہ بن چکے ہیں اور ملک میں دائیں بازو کی قیادت کے سلسلے میں اُن کا مقابلہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور اُن کی جماعت لیکود سے ہے۔

ماہر سیاسیات یارون ایزراہی کے خیال میں اسرائیلی سماج کا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ یہ ہے کہ اُن اقلیتوں کی نفری اب بڑھتی جا رہی ہے، جو ایک ایسی پارلیمانی جممہوریت پر یقین نہیں رکھتیں، جو اپنے شہریوں کی خدمت کرتی ہو۔ ایزراہی کے مطابق روسی نژاد تارکین وطن ایک ایسی قومی ریاست پر یقین رکھتے ہیں، جس کی بنیاد اس تصور پر ہو کہ جو طاقتور ہو گا، اُسی کا سکہ چلے گا۔ دوسری جانب انتہائی قدامت پسند اور قوم پرست مذہبی جذبات رکھنے والے یہودی ہیں، جو سرے سے حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ایزراہی کے خیال میں ان نظریات کی تربیت کا سلسلہ اسکول کے زمانے سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔

ملک میں دائیں بازو کی قیادت کے سلسلے میں وزیر خارجہ لیبرمن کا مقابلہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور اُن کی جماعت لیکود سے ہے
اسرائیلی دائیں بازو کی قیادت کے سلسلے میں وزیر خارجہ کا مقابلہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور اُنکی جماعت لیکود سے ہےتصویر: AP

دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی موجودہ اسرائیلی مخلوط حکومت اب تک کئی ایسے مسودے جزوی طور پر پارلیمان میں منظور بھی کروا چکی ہے، جو عرب اقلیت اور حکومتی ناقدین کے خلاف جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی قائد زیپی لیونی اس طرح کے اقدامات کو جمہوریت پر ایک حملہ قرار دیتی ہیں:’’نیتن یاہو مخلوط حکومت کے دھڑے کی جانب سے اٹھنے والے فاسد خیالات اس ملک کی فضاؤں پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قانون اور ایک کے بعد دوسرا بادل اسرائیل کی فضاؤں میں ایک قابل نفرت تیزابی بارش کا موجب بن رہے ہیں۔‘‘

ابھی حال ہی میں پارلیمان میں پیش کیے جانے والے مسودوں میں وہ مسودہ بھی شامل تھا، جس کا مقصد پارلیمان کو یہ اختیارات دینا تھا کہ وہ انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے اُن کے مالی وسائل کی بھی جانچ پڑتال کر سکے۔ یہ مسودہ حکومتی ارکان کے عدم تعاون کے باعث منظور نہ ہو سکا۔ اب لیبرمن مخلوط حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ حکومت ٹوٹ گئی تو نئے سرے سے انتخابات ہوں گے، جن میں یہ بات یقینی ہے کہ دائیں بازو کے عناصر کو واضح کامیابی حاصل ہو گی۔

رپورٹ: ٹِم آسمان (تل ابیب) / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں