1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جماعت اسلامی کے امیر کو پھانسی کے بعد بنگلہ دیش میں مظاہرے

عابد حسین11 مئی 2016

بنگلہ دیش میں بدھ گیارہ مئی کے روز دو بڑے شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں عمل میں آئیں۔ یہ جھڑپیں اُن مظاہروں کے دوران ہوئیں جو جماعت اسلامی کے امیر مطیح الرحمان نظامی کو پھانسی دیے جانے کے بعد شروع ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/1IltW
ایک احتجاجی نے پھانسی کا پھندا اور اپنے لیڈر کی تصویر اٹھا رکھی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/Asad

جماعت اسلامی کے لیڈر نظامی کو ڈھاکا کی جیل میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب پھانسی دی گئی تھی۔ اُن کی تدفین اُن کے آبائی علاقے پبنا میں آج بدھ کی صبح ہی میں کر دی گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے اپنے لیڈر کی پھانسی پر ایک روزہ ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہڑتال کل جمعرات کے روز کی جا رہی ہے۔ کل کی ہڑتال سے قبل ہی آج بدھ کے روز بھی بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ بھی ہوئی۔

اس پھانسی کے ردعمل میں ممکنہ مظاہروں کے تناظر میں ڈھاکا حکومت نے دارالحکومت سمیت تمام بڑے شہروں میں سکیورٹی کو انتہائی چوکس کر رکھا ہے۔ خاص طور پر دارالحکومت میں ہزاروں پولیس اہلکار تعینات ہیں اور موبائل گشت بھی جاری ہے۔

پھانسی کے عدالتی حکم پر عمل درآمد سے قبل جماعت اسلامی کے کئی لیڈروں کو بھی سکیورٹی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مطیع الرحمان نظامی کے آبائی علاقے پبنا میں اس مذہبی سیاسی پارٹی کے کم از کم سولہ اہم کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق شمال مغربی شہر راجشاہی میں مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو ربڑ کی گولیاں چلانا پڑیں۔ پولیس کے مطابق راجشاہی میں جماعت اسلامی کے قریب پانچ سو کارکن جذباتی ہو کر پولیس پر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے پتھراؤ بھی شروع کر دیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اسی شہر میں ایک لبرل پروفیسر کو مذہبی انتہا پسندوں کے ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

Bangladesch Nizam Dhaka Gericht Todesstrafe
نظامی سے آخری ملاقات کے لیے اُن کے رشتہ دار جیل پہنچتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/M.Asad

اسی طرح ایک اور شہر چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے قریب ڈھائی ہزار کارکنوں نے جمع ہو کر اپنے لیڈر کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا۔ اس مظاہرے کے دوران جماعت اسلامی کے کارکنوں اور وزیراعظم شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت کے ورکروں کے درمیان مخالفانہ نعرے بازی کے علاوہ ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ جہاں جہاں مظاہرے کیے گئے وہاں پر جماعت اسلامی کے ورکر شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کے علاوہ اپنے لیڈر کی پھانسی کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے رہے تھے۔

سن 2013 سے جماعت اسلامی کے لیڈران کو ملک کی آزادی کی جنگ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے پر پھانسی دینے کا سلسلہ جاری ہے اور ان پھانسیوں کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں اب تک پورے ملک میں قریب پانچ سو افراد مارے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کے سیکولر حلقوں نے مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ کئی سو کے قریب سیکولر افراد ڈھاکا شہر کے ایک مرکزی چوراہے اور اس جیل کے قریب جمع ہوئے جہاں نظامی کو پھانسی دی گئی۔ انہوں نے نظامی کو دی گئی پھانسی کو ملکی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ قرار دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں