1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جلتی لکڑیوں پر کھانا پکانا موت کا سبب بن رہا ہے

عابد حسین17 ستمبر 2015

بھارت اور پاکستان میں لکڑیوں کی آگ پر کھانا پکانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ موت کا ایک سبب بھی ہے۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سالانہ بنیاد پر 33 لاکھ افراد کی موت کی وجہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1GY5Q
تصویر: DW/S. Waheed

جنوبی ایشیا میں جلتی لکڑیوں پر پکتا ہوا کھانا، امریکا میں دھواں چھوڑتی ٹریفک اور روس میں کھاد کے کارخانے فضائی آلُودگی کے اضافے میں پیش پیش ہیں۔ ایک نئی ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تینتیس لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب یہی فضائی آلودگی ہے۔ یہ نئی ریسرچ جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار کیمسٹری نے مکمل کی ہے۔ اِس تحقیقی رپورٹ کی نگرانی ژوس لےلیفیلڈ کر رہے تھے۔

ریسرچ کے مطابق فضائی آلودگی سے ہونے والی لاکھوں ہلاکتوں میں سے 75 فیصد فالج اور عارضہٴ قلب سے ہوتی ہیں۔ یہ بیماریاں کئی برس تک آلودہ فضا میں سانس لینے سے انسانی جسم میں خاموشی سے پلتی رہتی ہیں۔ فضا میں موجود نظر نہ آنے والے ذرات بتدریج سانس لیتے وقت انسانی جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں اور سانس کی نالیوں میں جمتے رہتے ہیں۔ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار کیمسٹری کی ریسرچ پر مبنی رپورٹ ماحولیات کے معتبر جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہزار ہا افراد پھیپھڑے کے کینسر یا سرطان میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔

Cancer Survivor's Day in Indien
بھارت اور پاکستان میں لکڑیوں کی آگ پر کھانا پکانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہےتصویر: DW

فضائی آلودگی کی اس تازہ رپورٹ نے سن 2014 میں عالمی ادارہٴ صحت کی رپورٹ کے اعداد و شمار کی تصدیق کر دی ہے۔ رپورٹ لکھنے والے محقق ژوس لےلیفیلڈ کے مطابق فضائی آلودگی کا سب بڑا سبب جنوب مشرقی ایشیا اور چین میں لکڑی سے جلائی جانے والی آگ اور اُس پر کھانا پکانا ہے۔ یہ آگ زمین پر فضائی آلودگی سے ہونی والی ایک تہائی ہلاکتوں کی وجہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق لکڑی سے جلائی جانے والی آگ کے پہلو میں کام کرنے والے تو موت کی دہلیز پر بیٹھے ہیں لیکن قریبی ہمسائے اور دوسرے عمارتوں کے رہائشی بھی اِس آگ سے فضا میں پھیلنے والے کاربن ذرات سے محفوظ نہیں ہیں۔

ژوس لےلیفیلڈ کے مطابق اگر منظم پلاننگ نہ کی گئی تو سن 2050 میں ایک سال کے دوران فضائی آلودگی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 6.6 فیصد سے تجاویز کر جائے گی۔ لے لیفیلڈ کے مطابق چین اور جنوبی ایشیا کے ملکوں پر سخت کنٹرول کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق روس، مشرقی امریکا اور مشرقی ایشیا میں کھیتوں کے لیے کھاد بنانے والی فیکٹریاں بھی فضائی آلودگی کی مُجرم ہیں۔ اِن فیکٹریوں سے امونیا اور اِس کے سلفر اور نائٹروجن سے بننے والے مرکبات سے پیدا ہونے والے کیمیاوی مائیکرون کینسر کی افزائش میں معاون ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کاروں سے نکلنے والا دھواں بھی بہت مہلک ہے اور یہ دھواں برطانیہ، جرمنی اور امریکا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی بیس فیصد ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے۔