1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ آج

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : گوہر گیلانی27 ستمبر 2009

جرمنی میں پارلیمانی نتخابات کے حوالے سے مہم ختم ہو گئی ہے۔ تمام ہی بڑی جماعتوں کے سرکردہ لیڈران نے ووٹرز کو قائل کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ آج جرمن رائے دہنگان اپنے ووٹ کاسٹ کرکے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کریں گے۔

https://p.dw.com/p/JpkI
جرمنی میں الیکشن کے لئے تشہیری مہم کے دوران نصب کئے گئے بورڈتصویر: AP

جرمنی کے پارلیمانی الیکشن میں بڑی پارٹیوں کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ووٹوں کے فرق کو بڑھا سکیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اتوار کا الیکشن کہیں حیران کن نتائج کا حامل نہ ہو اور اِسی وجہ سے وہ اِسے ’سرپرائز سنڈے‘ کا نام دے رہے ہیں۔

تمام تر ’سرپرائزز‘ کے باوجود فوربز جریدے کے مطابق اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ گزشتہ چار برسوں سے دنیا کی انتہائی با اثر اور طاقتور خاتون لیڈر چانسلر انگیلا میرکل ہی دوسری مدت کے لئے بھی ملک کی چانسلر ہوں گی۔

Deutschland Wahlen Plakat SPD und CDU Angela Merkel und Frank-Walter Steinmeier
ایک اور اشہاری بورڈ: شٹائن مائر نمایاں ہیںتصویر: AP

جرمن الیکشن میں تمام پارٹیوں کے ایجنڈوں اور منشوروں پر مالیاتی بحران کے ساتھ ساتھ ملازمتوں کے مواقع کم ہونے یعنی بے روزگاری میں اضافہ، صارفین کے اعتماد میں اضافہ اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرات جیسے اہم موضوعات شامل تھے۔ انتخابی مہم کے دوران انہی موضوعات کی بازگشت سننے کو ملی۔ اِن ہی موضوعات پر تمام پارٹیوں نے ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔

دوسری جانب رائے عامہ کے جائزوں کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن میں کانٹے دار مقابلے کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور موجودہ وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے ابتداء میں ایک کمزور لیڈر کے طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز ضرور کیا تھا لیکن وہ مسلسل اعتماد حاصل کرتے گئے اور انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی مقبولیت میں کمی کرنے میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

Abschlussveranstaltung der CDU Bundestagswahl 2009
سیاسی جماعت سی ڈی یو کے پلے کارڈزتصویر: AP

اگر میرکل کا قدامت پسند اتحاد اور آزاد تجارت کی حامی فری ڈیموکریٹک پارٹی FDP مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر سکے تو جرمنی میں شاید پھر سے ایک ’گرینڈ‘ مخلوط حکومت قائم ہونے کے امکانات ہیں۔

مشہور جریدے سٹرن نے فورسا انسٹی ٹیوٹ کے لئے رائے عامہ کے ایک جائزے کا اہتمام کیا۔ اِس جائزے کے مطابق چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین CDU کی حمایت میں کچھ کمی واقع ہونے سے اُن کی پسندیدہ مخلوط حکومت کے پارٹنر کے کامیابی کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ فورسا انسٹی ٹیوٹ کے اس جائزے کے مطابق انگیلا میرکل کی جماعت کو 33 فی صد ووٹ مل سکتے ہیں اور پارٹنر جماعت FDP کو 14 فی صد تک ووٹ مل سکتے ہیں۔ میرکل کی جماعت کی روایتی مخالف جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کو25 فی صد ووٹ حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔

بائیں بازو کی جماعت ’ڈی لنکے‘ کو 12اور ماحول پسند جماعت گرین پارٹی 10فی صد تک ووٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ابھی تک 26 فی صد رائے دہندگان اس بات کا حتمی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ وہ الیکشن ڈے پر کس جماعت کو اپنا ووٹ دیں گے۔

BdT Kind mit SPD-Luftballon
سوشل ڈیمو کریٹ کی ریلی میں ایک غبارہ تھامے ہوئے بچہتصویر: AP

اِسی طرح ایمنیڈ پولنگ ایجنسی Emnid Polling Agency نے بھی رائے عامہ کے جائزوں کے نتائج جاری کئے ہیں۔ ان کے مطابق میرکل جرمنی کی مقبول ترین لیڈر ہیں لیکن ووٹرز چاہتے ہیں کہ SPD اور CDU کے درمیان ہی اگلی حکومت بنے لیکن اس کے ساتھ ہی ووٹرز متوازی اختیارات کی تقسیم ضروری سمجھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان ایک بڑا معرکہ بھی ثابت ہو سکتا ہے اور تبدیلی کی ہوا چل سکتی ہے۔

سوشل ڈیمو کریٹس نے اپنے لیڈر فرانک والٹر شٹائن مائر کی قیادت میں برلن میں جمعہ کو ایک بڑی ریلی کا اہتمام کیا جبکہ شٹائن مائر نے ہفتہ کو ڈریسڈن میں ایک ریلی سے خطاب کیا۔

دوسری جانب چانسلر میرکل نے برلن میں ہفتے کو اپنی جماعت کی ایک انتخابی مہم میں شرکت کی۔

انتخابی مہم میں کئی دلچسپ اور حیران کُن وعدےکئے گئے۔ ایک سوشل ڈیموکریٹ لیڈر کا کہنا تھا کہ اُن کی کامیابی کی صورت میں جرمنی کے اندر کم از کم اجرت فی گھنٹہ ساڑھے سات یورو رکھی جائے گی۔ اِس تجویز کو انگیلا میرکل کی جماعت نے واشگاف انداز میں مسترد کردیا۔ میرکل کی جماعت ٹیکس میں رعایت دینے کی خواہش رکھتی ہے جب کہ سوشل ڈیموکریٹس انکم ٹیکس کو اُن افراد کے لئے بڑھانا چاہتے ہیں جن کی تنخواہیں زیادہ ہیں۔

اتوار کو جرمنی میں موسم اچھا رہنے کی امید ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے بڑی تعداد میں ضرور جائیں گے۔