1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ملٹری یونیورسٹی میں انتہا پسند عناصر فعال؟

عاطف بلوچ Sertan Sanderson (dpa, AFP)
19 مئی 2017

جرمن فوج میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کے فعال ہونے کے دعوؤں کے بعد جرمن حکام نے ملٹری یونیورسٹی میں چھان بین شروع کر دی ہے۔ اس اسکینڈل کی وجہ سے وزیر دفاع پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2dEHt
Frankreich  Illkirch-Graffenstaden Bundeswehr Soldaten vom Jägerbataillon 291
تصویر: Getty Images/AFP/F. Florin

جرمن روزنامے زود ڈوئچے سائٹنگ میں شائع کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جرمن فوج میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد معلوم اعدادوشمار سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ جمعے کی اشاعت میں اس اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ میونخ میں واقع ’بنڈس ویئر یونیورسٹی‘ یعنی فوجی یونیورسٹی میں گزشتہ کچھ سالوں سے ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

جرمن فوج کا دہشت گردی اسکینڈل، مزید گرفتاریاں

جرمن افواج کے سربراہ کا تمام فوجی بیرکوں کے معائنے کا حکم

جرمن فوجی کی بطور مہاجر پناہ کی درخواست کیسے منظور ہوئی؟

جرمنی کی اس یونیورسٹی کا بنیادی مقصد ایسے نوجوانوں کو تربیت فراہم کرنا ہے، جو ملکی فوج سے باہر رہ کر سکیورٹی کے شعبہ جات میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔ زود ڈوئچے سائٹنگ کی رپورٹ کے مطابق Identitarian Movement سے وابستہ انتہا پسندوں کا نیٹ ورک اس اہم جرمن تعلیمی ادارے میں پھیل رہا ہے، جو اس ملٹری یونیورسٹی کے طلبا اور فارغ التحصیل افراد پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہے۔

جرمنی کی داخلی خفیہ ایجنسی BfV گزشتہ کئی سالوں سے اس تحریک کو مانیٹر کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کم ازکم تین سو انتہا پسند افراد اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ اس تحریک پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اسلامو فوبیا  اور غیر ملکیوں سے خوف کا شکار ہے۔ جرمن ملٹری کی انسداد دہشت گردی ایجسنی MAD اس وقت جرمن فوج میں 284 کیسوں کی چھان بین کر رہی ہے۔

جرمن فوج پر دباؤ بڑھتا ہوا

جرمن ملٹری کی انسداد دہشت گردی ایجسنی کے تفتیشی عمل میں اب ایسے چار اسٹوڈنٹس بھی شامل ہیں، جو بنڈس ویئر یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان پر شبہ ہے کہ ان کی انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل گروہوں سے روابط ہیں۔

جرمن اخبار زود ڈوئچے سائٹنگ کے مطابق MAD اپنی چھان بین میں ان چار اسٹوڈنٹس کا فرانکو اے نامی اس فرسٹ لیفٹینینٹ کے ساتھ ممکنہ بلاواسطہ بالواسطہ تعلق تلاش کرنے کی کوشش میں بھی ہے، جو دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام کے تحت اپریل میں گرفتار کیا گیا تھا۔

Frankreich Bundesverteidigungsministerin Ursula von der Leyen in Illkirch
جرمن وزیر دفاع اورزلا فان ڈیئر لاین کہہ چکی ہیں کہ اس تمام معاملے میں انہوں نے ذاتی طور پر کوئی بے پروائی نہیں برتیتصویر: Getty Images/AFP/F. Florin

جرمن میڈیا کے مطابق فرانکو اے اور اس کے دو ساتھی ایسے حملوں کا الزام مہاجرین پر عائد کرنے کی منصوبہ بندی میں تھے۔ فرانکو نے خود کو بطور شامی مہاجر بھی رجسٹر کرایا تھا۔ اس کیس کو جرمن فوج کے لیے بھی ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے، جو پہلے ہی اسکینڈلز کی زد میں ہے۔ جرمن وزیر دفاع اورزلا فان ڈیئر لاین پہلے ہی فوج میں مکمل انکوائری کے احکامات جاری کر چکی ہیں۔

تاہم جرمن وزیر دفاع کہہ چکی ہیں کہ اس تمام معاملے میں انہوں نے ذاتی طور پر کوئی بے پروائی نہیں برتی ہے۔ جرمنی کی لیفٹ پارٹی سے وابستہ خاتون سیاستدان کرسٹین بُوخ ہولز نے فان ڈیئر لاین کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ جرمن فوج اور اس کی انسداد دہشت گردی ایجسنی MAD ’مکمل ناکامی‘ سے دوچار ہو چکی ہے۔