1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن رضاکاروں کو مہاجرین سے ہمدری واقعی ’مہنگی‘ پڑی

عاطف توقیر کارلا بلائیکر
12 اپریل 2017

شامی مہاجرین کے خاندانوں کو آپس میں ملانے کے لیے کوشاں جرمن رضاکاروں کو بھاری ادائیگیوں کا سامنا ہے، کیوں کہ ان کی جانب سے مالی بوجھ اٹھانے کی ضمانتیں تو موجود ہیں لیکن قانون تبدیل ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2b7nb
Deutschland Bonn Migranten Tanzschule
تصویر: DW/R. Shirmohammadi

کلاؤس ڈیٹر گروتھے اور دیگر رضاکاروں نے جرمن ریاست ہیسے میں ’’مہاجرین کی مدد، وسطی ہیسے‘‘ نامی ایک امدادی تنظیم بنائی تھی، اور ان انسان دوست باشندوں کو کئی مقامی سیاست دانوں نے ’بہترین شہری‘ بھی قرار دیا تھا۔ یہ افراد مہاجرین کو نہ صرف خوش آمدید کہہ رہے تھے، بلکہ انہوں نے ان کی مالی ذمہ داری بھی اٹھائی تھی۔ مگر یہ فراغ دلی اب ان کے لیے ایک ’ڈراؤنے خواب‘ میں بدل چکی ہے۔

سن 2013ء میں ہیسے کی ریاستی حکومت نے ایک پروگرام شروع کیا تھا، جس کے تحت جرمنی میں موجود شامی مہاجرین کو اپنے خاندانوں کے باقی ماندہ افراد کو بھی جرمنی بلانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس قانون کے تحت مہاجرین کی صرف یہ ثابت کرنا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اپنے خاندان کے باقی ماندہ افراد کی آمد کے بعد ان کا مالی بوجھ اٹھانے یعنی خوراک اور رہائش کی سہولیات کے لیے کافی مالیاتی وسائل موجود ہیں۔

Deutschland Bonn Migranten Tanzschule
جرمنی میں رضاکار مہاجرین کے لیے فراغ دلانہ رویہ اپنائے ہوئے تھےتصویر: DW/R. Shirmohammadi

چوں کہ تمام مہاجرین کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ یہ بوجھ خود اٹھاتے، تو گروتھے اور قریب 30 دیگر رضاکار اس کام میں کود پڑے اور مالی ضمانتوں کے دستاویزات پر دستخط کر دیے، جن کے مطابق ان مہاجرین کے خاندانوں کے جرمنی آنے پر ریاستی حکومت کوئی مالی بوجھ نہیں اٹھائے گی بلکہ یہ افراد یہ رقوم خود خرچ کریں گے۔ گروتھے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بعض صورتوں میں ضمانتی شہری کو کچھ ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ شامی خاندان کو صرف جرمنی لانے کی ضرورت تھی، ہونا صرف یہ تھا کہ ایک کمرے میں ایک کی بجائے پانچ افراد سو جاتے اور پانچ کی بجائے آٹھ افراد کا کھانا پکا لیا جاتا اور بعض دیگر صورتوں میں کسی ضمانتی کو پانچ سو سے لے کر پانچ ہزارو یورو تک ادا کرنا پڑتے۔‘‘

تاہم جسے شامی مہاجر خاندانوں کو ملانے کے لیے ایک بار کی فراخ دلی سمجھا جا رہا تھا، وہ ان ضمانتیوں کے لیے مالی طور پر ایک ’’ڈراؤنا خواب‘‘ بن چکی ہے۔

اب تک یہ بحث کی جا رہی تھی کہ ضمانتیوں پر یہ ذمہ داری ان خاندانوں کے جرمنی پہنچ جانے کے بعد ختم کر دی جائے یا نہیں، کیوں کہ کسی بھی متعلقہ خاندان کے دیگر افراد بھی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا رہے تھے، تاہم جرمنی کی وفاقی انتظامی عدالت نے سن 2016ء کے اپنے فیصلے میں احکامات جاری کر دیے تھے کہ ایسے تمام مہاجرین جو سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے سے قبل کسی ضمانتی کی مدد سے جرمنی پہنچے، ان کے اخراجات ریاست ادا نہیں کرے گی اور ہر صورت میں ان کا مالی بوجھ ضمانتیوں ہی کو برداشت کرنا ہو گا۔

اب ان ضمانتیوں کو ریاست کو وہ رقوم بھی ادا کرنا ہیں، جو جرمنی آنے والے مہاجرین کے خاندانوں پر مقامی حکومت نے خرچ کیں۔ اس طرح ان رضاکاروں کو اب کئی واقعات میں ہزاروں یورو تک ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔

مصنف کارلا بلائیکر